وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے امن مارچ جرگے سے ملاقات میں مسلحہ گروپوں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کے بعد بنوں پولیس نے کریک ڈاؤن کا آغاز کرتے ہوئے 20 افراد گرفتار کرلیے۔
بنوں پولیس کے مطابق مسلحہ گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور گزشتہ رات سے مختلف علاقوں میں مبینہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر چھاپے مارے گئے۔
ترجمان بنوں پولیس نے بھی ان گرفتاریوں اور چھاپوں کی تصدیق کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بنوں واقعے پر اپیکس کمیٹی کا اجلاس: امن جرگے کے مطالبات مان لیے گئے
بنوں پولیس کے مطابق خفیہ اطلاع پر مختلف علاقوں میں سی ٹی ڈی اور مقامی پولیس مشترکہ طور کامیاب کارروائیاں کر رہی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ کارروائیاں بنوں ٹاون، تبلیغی مرکز، اوقاف کالونی، احمد خان بازار، مسلم آباد میں عمل میں آئی ہیں جہاں مبینہ مسلحہ گروپوں کے متعدد دفاتر یا ٹھکانوں کو بھی سیل کیا گیا جبکہ گرفتار افراد سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
بنوں پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ اعلیٰ حکام کی جانب سے ہدایت ملنے کے بعد ہی کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے جس میں اب تک 20 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان گروپوں کے خلاف امن مارچ کے شرکا کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
مزید پڑھیے: کیا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے بنوں جرگہ کے تمام مطالبات منظور کر لیے؟
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ بھی زیر گردش ہے جس میں بنوں پولیس مبینہ مسلحہ گروپوں سے وابستہ افراد کو گرفتار کرکے لے جا رہی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گرفتار ہونے والے افراد کے لمبے لمبے بال ہیں اور انہیں نامعلوم مقام منتقل کیا کر رہا ہے۔
بنوں امن مارچ میں شریک مقامی رہائش عدنان خان کے مطابق بنوں کے شہری اور نواحی علاقوں میں مسلحہ افراد اکثر نظر آتے ہیں جو بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی افراد ان مسلحہ گروپوں کو ’گڈ طالبان‘ کہتے ہیں جو سرکاری معاملات میں داخل اندازی نہیں کرتے بلکہ عام لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
ان کے مطابق مسلحہ گروپوں کے باقاعدہ دفاتر یا ٹھکانے بھی ہیں اور وہ کھلم کھلا پھرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امن جرگے کا ایک اہم مطالبہ ان افراد کے خلاف سخت کارروائی بھی ہے جس پر حکومت نے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا لیکن انہیں خدشہ ہے کہ دھرنا ختم ہونے کے بعد وہ شرپسند عناصر واپس نہ آجائیں۔