پانی کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا کو اپنے میٹھے پانی کے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ پانی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال سنگین مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
’خوشحالی اور امن کے لیے پانی‘ کے عنوان پر مبنی رپورٹ میں آگہی بڑھانے، ڈیٹا اکٹھا کرنے اور سرمایہ کاری پر زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مبنی نئے حل کی حدود کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرہ ارض کی قریباً نصف آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، موسمیاتی تبدیلی سے منسلک خشک سالی نے 2002 اور 2021 کے درمیان ایک ارب 40 کروڑ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا۔ 2022 تک 2 ارب سے زیادہ لوگ پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم تھے، جبکہ ساڑھے 3 ارب لوگوں کے پاس مناسب بیت الخلا کا فقدان تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ دنیا بھر کے دریاؤں میں، دواسازی، ہارمونز اور صنعتی کیمیکلز شامل ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:کوالہ جو پانی کا ایک بھی گھونٹ پیے بغیر زندگی گزار دیتا ہے
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کی سپلائی، پانی کے با کفایت استعمال اور گندے پانی کے نکاس کی سروسز کے معیار اور توسیع کو بہتر کرنے کے لیے متعدد ٹیکنالوجیز دستیاب ہیں لیکن تیزی سے ابھرتی ہوئی بہت سی ٹیکنالوجیز بہت زیادہ پانی استعمال کرتی ہیں اور اگر ان پر نظر نہ رکھی گئی تو مستقبل قریب میں سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آرٹیفشل انٹیلی جینس (AI) دریا ئی نظاموں کو مینیج کرنے، ہنگامی ردعمل اور پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی صفائی کے پلانٹس کے آپریشن اور دیکھ بھال کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن مصنوعی ذہانت یا اے آئی اور متعلقہ ٹیکنالوجیز کو کمپیوٹر کولنگ سسٹم کے لیے پانی کی بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ ان کے آلات کو چلانے کے لیے بہت زیادہ (اکثر پانی کے بہت زیادہ استعمال) توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والے برسوں میں ریکارڈ بارش اور شدید خشک سالی کے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے لیکن ان مسائل کوحل کرنے کے طریقوں میں بھی بہت زیادہ پانی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسی ہی ایک تکنیک، جسے کاربن کیپچر اینڈ سٹوریج کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:دنیا کی چھت ’شندور‘ میں واقع جھیل کا پانی کہاں سے آتا ہے؟
کرہ ارض کی کاربن آلودگی کو کم کرنے کے لیے معدنی ایندھن سے چلنے والے پاور پلانٹس اور اسٹیل اور سیمنٹ جیسی بھاری صنعتوں کے کارخانوں کے اخراج سے کاربن ڈائی آکسائڈ کو اکٹھا کرلیتی ہے۔ کاربن کو جذب اور اسٹور کرنے کے سسٹمز میں توانائی اور پانی کی بہت زیادہ مقدار استعمال ہوتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ معدنی ایندھن نکالنےاور تھرمل اور نیوکلیئر پاور اسٹیشنوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جو توانائی خرچ ہوتی ہے اسے پیدا کرنےکے لیے عالمی سطح پر نکالے جانے والے پانی کا10 سے 15 فیصد خرچ ہوتا ہے۔ اگرچہ ونڈ، سولر اور جیوتھرمل انرجی سسٹمز میں پانی کم استعمال ہوتا ہے لیکن ان سے پیدا کردہ توانائی کو ذخیرہ کرنے کے لیے لیتھیم بیٹریوں کی ضرورت ہوتی ہے اور لتھیم ایک انتہائی قیمتی اور کمیاب دھات ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پھر سولر پینلز کے لیے لیتھیم اور دوسری اہم معدنیات زمین سے نکالنے کے لیے عام طور پر بہت زیادہ پانی خرچ ہوتا ہے، جب کہ اس کے نتیجے میں پانی، خاص طور پر گراؤنڈ واٹر کی کوالٹی، ایکو سسٹمز اور مقامی آبادی کے لیےاہم خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔