حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان بجلی کے بلوں، بھاری بھر ٹیکسوں اور دھرنے کے پرامن خاتمے کے لیے مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔
اتوار کی سہ پہر وفاقی حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات کمشنر آفس راولپنڈی میں ہو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکومت بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں میں اضافے سے متعلق مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہی تو پارٹی کا راولپنڈی دھرنا ملک کے دیگر علاقوں تک پھیلایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:شہباز شریف 37 ہزار میں غریب شخص کے گھر کا بجٹ بنا کر دکھائیں، حافظ نعیم الرحمان
احتجاج کے دوسرے روز بھی مری روڈ مریڑ چوک سے کمیٹی چوک تک ٹریفک کے لیے بند رہا اور شہر کے وسط سے گزرنے والی شاہراہ پر کنٹینرز رکھے گئے۔ جس کے نتیجے میں علاقے میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔
جماعت اسلامی کے دباؤ پر وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ کی سربراہی میں 3 رکنی حکومتی وفد نے ہفتے کی رات جماعت اسلامی کے قائدین سے مذاکرات کیے۔
حکومتی وفد نے بتایا تھا کہ ہفتے کی رات کو ہونے والی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں فریق جماعت اسلامی کے مطالبات کے حل کے لیے اتوار کو باضابطہ بات چیت کریں گے۔
مزید پڑھیں:مطالبات نہ مانے گئے تو دھرنا آگے بڑھے گا، حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کریں گے، حافظ نعیم الرحمان
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کی جانے والی ایک پوسٹ میں عطااللہ تارڑ کے حوالے سے تصدیق کی گئی تھی کہ حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات اتوار کی سہ پہر ہوں گے۔
اب اتوار کو لیاقت باغ کمشنر آفس میں دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے، حکومت کی مذاکراتی ٹیم کی قیادت وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ جب کہ جماعت اسلامی پاکستان کی جانب سے تشکیل دی گئی ٹیم کی قیادت نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ کر رہے ہیں۔
اس سے قبل عطااللہ تارڑ نے بیان میں کہا تھا کہ ہفتہ کو حکومتی وفود اور جماعت اسلامی کے درمیان ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔
بجلی اور ٹیکسوں میں اضافہ صرف جماعت اسلامی کا مسئلہ نہیں
دریں اثنا اتوار کو دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے شرکا کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بجلی اور ٹیکسوں کی بھرمار صرف جماعت اسلامی کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مجبور ہو کر سڑکوں پر نکلے ہیں، دھرنا دینے کا کوئی شوق نہیں لیکن آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد کے علاوہ اس مسئلے کو حل کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
مزید پڑھیں:جماعت اسلامی کا دھرنا جاری، موجودہ حکومت اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، سراج الحق
انہوں نے کہا کہ جب پارلیمنٹ اور ادارے کام نہ کر رہے ہوں تو آئین کے تحت احتجاج کرنا ہمارا حق ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے وزیراعظم شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے بتائیں کہ ایک عام آدمی 37 ہزار روپے کے ساتھ اپنا گھر کیسے چلا سکتا ہے۔ عام آدمی کے لیے گھر چلانا مشکل ہو رہا ہے وہ بجلی کے بھاری بل کیسے ادا کرے گا؟ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بجلی کے بلوں میں فوری کمی کی جائے۔
انہوں نے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے معاہدوں کو عوام سے چھپایا جارہا ہے۔ پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ ’بھارت کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے‘۔
مزید پڑھیں:جماعت اسلامی کا دھرنا جاری، حکومت کو پیش کیے گئے 10 مطالبات سامنے آگئے
حافظ نعیم الرحمان نے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے احتجاج میں شامل ہونے کی بھی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ ’طلباء، وکلاء، تاجر اور صنعت کار اس تحریک کا حصہ بن کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں کیوں کہ غریبوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ پرامن احتجاج ہی ہے۔
جماعت اسلامی کے 10 مطالبات
جماعت اسلامی مطالبہ کر رہی ہے کہ حکومت 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو 50 فیصد رعایت دے، جبکہ پیٹرولیم لیوی ختم کرکے پیٹرول کی قیمتوں میں کیا گیا حالیہ اضافہ واپس لیا جائے۔
جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 20 فیصد کمی لائی جائے، اور اسٹیشنری آئٹمز پر لگائے گئے ٹیکسز فوری ختم کیےجائیں۔
اس کے علاوہ حکومتی اخراجات کم کرکےغیرترقیاتی اخراجات پر 35 فیصد کٹ لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ کیپسٹی چارجز اور آئی پی پیز کو ڈالروں میں ادائیگی کا معاہدہ ختم کیا جائے، اور پہلے سے کیے گئے معاہدوں کا ازسر نو جائزہ بھی لیا جائے۔
جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ زراعت اور صنعت پر ناجائز ٹیکس ختم اور 50 فیصد بوجھ کم کیا جائے، صنعت، تجارت اور سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جائے تاکہ نوجوانوں کو روزگار ملے۔