پاکستان اس وقت اہم سیاسی دوراہے سے گزر رہا ہے، ملک میں سیاسی عدم استحکام عین عروج پر ہے، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے ہر داؤ پیچ استعمال کررہی ہیں تو ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں۔ اس سیاسی اور ادارہ جاتی کھینچا تانی میں عوام کے بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا۔ عوام کی داد رسی کا پہلا اور بنیادی فرض ان سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کا ہوتا ہے جو انہیں منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے ہیں تاکہ ان کی آواز بن کر اقتدار کے ایوانوں میں ان کے مسائل اجاگر کریں، لیکن بجائے عوام کے مسائل اجاگر کرنے کے یہاں ہر سیاسی جماعت اپنی قیادت کے مسائل اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے میں مگن ہوجاتی ہے۔
سیاسی جماعتیں تو عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو ہی چکی ہیں۔ اس کے بعد عوام کو ایک بڑی امید عدالتوں سے ہوتی ہے کہ وہ ان کو انصاف دلائیں گی لیکن عدالتیں بھی انصاف کے لیے ترستی مخلوق کو عدل و انصاف دینے میں بالکل ناکام ہوچکی ہیں۔ عدل کا نظام اس قدر بوسیدہ ہوچکا ہے کہ کسی بھی وقت اس کے گرنے کا احتمال رہتا ہے۔ سالہا سال سے عدالتوں میں پڑی مقدمات کی فائلیں دیمک زدہ ہورہی ہیں لیکن ہماری عدلیہ گرمیوں کے 2 مہینے چھٹی پر چلی جاتی ہے۔
پاکستان لا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2023 تک ملک بھر کی عدالتوں میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد 2.26 ملین تک پہنچ چکی تھی۔ جس میں سے 1.86 ملین ماتحت عدالتوں میں اور 0.39 ملین ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہیں۔ جبکہ سال 2023 میں 2.38 ملین نئے کیسز درج ہوئے جس میں سے 2.3 ملین نمٹائے گئے اور باقی زیرالتوا رہ گئے۔ ہر گزرتے سال زیرالتوا مقدمات ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں بڑھ رہے ہیں لیکن عدلیہ کو ہر صورت گرمیوں کی چھٹیاں چاہیے ہوتی ہیں۔
مسئلہ صرف گرمیوں کی چھٹیوں کا نہیں، اگر حساب لگایا جائے تو ہفتے میں 2 دن (ہفتہ، اتوار) عدالتیں بند ہوتی ہیں جو کہ سال میں 96 دن (تقریباً 3 ماہ) چھٹیاں بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ 15 دن سردیوں کی چھٹیاں علیحدہ ہیں اور گرمیوں کے 2 ماہ ملا کر سال بھر میں ہماری عدلیہ تقریباً ساڑھے پانچ ماہ چھٹیوں پر ہوتی ہیں اور ساڑھے 6 ماہ کام کرتی ہیں۔ یعنی پاکستان بننے سے لے کر آج تک پاکستانی عدالتیں 20 سے 22 سال چھٹیوں کی وجہ سے بند رہی ہیں۔
یہ گرمیوں کی چھٹیوں کا کلچر بھی گوروں کی اختراع ہے جو یہاں برصغیر میں کام کرتے تھے۔ وہ کیونکہ سرد موسم سے آتے تھے اور یہاں کے سخت موسم، مچھر اور ماحول سے پریشان ہوکر گرمیاں گزارنے اپنے ملک چلے جاتے تھے۔ گورے تو چلے گئے لیکن ہمارے براؤن صاحبان نے اپنے سابق آقاؤں کی روایات زندہ رکھیں۔ گوروں کی تو سمجھ آتی ہے وہ غاصب تھے یہاں کے وسائل لوٹنے اور عوام پر حکومت کرنے آئے تھے اس لیے انہیں اپنے مفادات زیادہ عزیز تھے اور عوام کی کوئی پرواہ نہیں تھی، لیکن ذاتی مفادات کی یہ عادات یہاں رہ جانے والی ہماری اشرافیہ کو وہ دے گئے۔
ہماری اشرافیہ ہو یا چاہے عدلیہ ان کو اس بڑھتی ہوئی زیر التوا مقدمات کی تعداد کم کرنے کا حل صرف ججز کی تعداد بڑھانے میں ہی نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ ہو، ہائی کورٹس یا ماتحت عدلیہ ججز کی تعداد بڑھتے بڑھتے تقریباً دُگنی ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود ہر گزرتے سال زیرالتوا مقدمات کم ہونے کے بجائے بڑھ ہی رہے ہیں۔ اگر کیسز کی تعداد کم کرنی ہے تو ججز کی تعداد بڑھانے کے بجائے کچھ نیا کرنا ہوگا۔
پہلا کام جو اس حکومت اور عدلیہ کو کرنا چاہیے وہ پاکستان لا کمیشن کو فعال بنانا چاہیے۔ لا کمیشن کا بنیادی کام ملک میں ہونے والی قانون سازی کاجائزہ لینا اور اگر کسی قانون میں کوئی قانونی خامیاں ہیں ان کو دور کرنا ہونا چاہیے۔ دوسرا کام وزارت قانون کو ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کس قانون کے تحت سب سے زیادہ مقدمات زیرالتوا ہیں۔ پھر اس قانون کا جائزہ لیا جائے کہ اس میں کیا خامی ہے اس کو دور کیا جائے۔ ان خامیوں کو دور کرکے زیرالتوا مقدمات کافی حد تک کم کیے جاسکتے ہیں۔ ججز کی تعداد بڑھانا کوئی حل نہیں۔ یہ قوم پہلے ہی مہنگائی اور غربت کی چکی میں پس رہی ہے اس قوم پر بوجھ بڑھانے کے بجائے گرمیوں کی چھٹیاں کم کی جائیں۔ اگر ایک ماہ بھی چھٹیاں کم کردی جائیں تو اس میں ہزاروں مقدمات کم کیے جاسکتے ہیں جس سے نہ صرف عوام کو انصاف ملے گا بلکہ مزید ججز کا بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔