ملک بھر میں بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کے باعث ماضی میں مختلف حکومتوں نے بجلی کا شارٹ فال پورا کرنے کے لیے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز سے معاہدے کیے، ان کمپنیوں سے ایسے طویل معاہدے کیے گئے کہ اب ان کمپنیوں کو ماہانہ کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں اربوں روپوں کی ادائیگی کی جاتی ہے، جس کے لیے عوام کو موصول ہونیوالے بلوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یعنی آئی پی پیز کے ساتھ 2057 تک کے معاہدے کیے گئے ہیں یعنی آئندہ 33سالوں تک بھی ان کمپنیوں کو ادائیگیاں جاری رہیں گی۔
وزارت توانائی کے مطابق گزشتہ 10سالوں میں 2013 سے 24تک کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں آئی پی پیز کو 8 ہزار 344ارب روپے ادائیگی کی گئی ہے۔ دستاویز کے مطابق گزشتہ مالی سال 2022-23 میں کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں آئی پی پیز کو 1300ارب ادا کیے گئے جبکہ رواں سال 2ہزار 10ارب روپے ادا کرنا ہوں گے۔
مزید پڑھیں: آئی پی پیز سی پیک کی طرح اہم معاہدے، کسی صورت ختم نہیں کر سکتے، اویس لغاری
سینیئر صحافی اور معاشی تجزیہ کار مہتاب حیدر نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا چونکہ آئی پی پیز کو دی جانے والی ادائیگیوں کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور حکومت کو زور دیا جا رہا ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ختم کیا جائے یا ان پر نظر ثانی کی جائے، اس وجہ سے آج کل اس پلان پر نظر ثانی کی جا رہی ہے اور مختلف آئی پی پیز نے اپنے ملازمین کو کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہماری کمپنی بند ہونے لگی ہے آپ اپنا کوئی اور بندوبست کرلیں۔
مہتاب حیدر نے کہا کہ پاکستان میں مختلف کاروباری شخصیات کی طرح کچھ بین الاقوامی کمپنیوں کے بھی آئی پی پیز ہیں، وہ آئی پی پیز جو 20، 25 سالوں سے زائد عرصے سے بجلی بنا رہے ہیں اور انہوں نے اربوں روپے کے منافع کما لیے ہیں۔ ایسے آئی پی پیز کو ممکنہ طور پر بند کر دیا جائے گا، چند آئی پی پیز نے اپنی کمپنیوں کو بند کرنے کی تیاری بھی کرلی ہے، متعدد آئی پی پیز کے قیام کو 10 سے 15سال کا عرصہ گزرا ہے لیکن ان کے ساتھ طویل معاہدے کیے گئے ہیں ان معاہدوں پر بھی نظر ثانی کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: آئی پی پیز کو ادا کی جانے والی رقم پاکستان کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ کیسے ہوئی؟
مہتاب حیدر کے مطابق پاکستان میں مختلف حکومتوں نے دوست ممالک سے بڑی مدد لی اور پھر آئی پی پیز کا قیام ہوا، اس لیے جو بیرون ملک کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے گئے ہیں ان پر نہ تو کوئی نظر ثانی کی جائے گی اور نہ ہی انہیں بند کیا جائے گا جبکہ ان کو کپیسٹی پیمنٹس کی ادائیگیوں کا سلسلہ ماضی کی طرح بھی جاری رہے گا۔