ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنا انتہائی مشکل ہے، 8ہزار 611 میٹر بلند چوٹی کو پہلی مرتبہ 31 جولائی 1954کو اطالوی کوہ پیماؤں نے سر کیا تھا جس کے بعد دنیا بھر سے سیکڑوں کوہ پیما وقتاً فوقتاً اس کو سر کرچکے ہیں۔ تاہم، گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی سلطانہ نسب تیسری پاکستانی خاتون کوہ پیما ہیں جنہوں نے کامیابی سے کے ٹو کو سر کرکے پاکستانی پرچم لہرا دیا ہے۔
پاکستان اور چین کی سرحد پر بڑے پہاڑی سلسلے میں واقع دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے والی سلطانہ نسب کے ہمراہ 5 خواتین اور مردوں میں سرباز خان شامل تھے، پاک آرمی کے زیر اہتمام ہونے والے فرسٹ ویمن کے ٹو ایکسپڈیشن کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کے بعد چوٹی پر پاکستان کا پرچم بھی لہرایا گیا۔
مزید پڑھیں: 15 سالہ سلینہ کے ٹو سے قبل نانگا پربت کیوں سر کرنا چاہتی ہیں؟
کوہ پیما سرباز خان کی قیادت میں ٹیم گزشتہ ماہ مہم جوئی پر روانہ ہوئی تھی، ٹیم کو پاک آرمی کا خصوصی تعاون حاصل رہا ہے۔ کے ٹو سر کرنے والی پہلی خاتون کوہ پیما سلطانہ نسب کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقے شمشال سے ہے۔
ٹیم لیڈر سرباز خان نے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا کہ سخت موسمی حالات تھے لیکن ہم نے کچھ کرنے کی ٹھکان لی تھی اور ان حالات کے باوجود کے ٹو پر سبز ہلالی پرچم لہرایا، جس پر پوری قوم کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
سلطانہ نے کہا کہ سبز ہلالی پرچم کے ٹو کی بلندی پر لہرا کر خوشی ہوئی ہے اور قوم کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے ہماری کامیابی کے لیے دعا کی ہے۔ خصوصی طور پر پاک آرمی کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے ہمیں سپورٹ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: کے ٹو کو سر کرنے کا مشن، 4 پاکستانی خواتین بھی سبز ہلالی پرچم لہرانے کے لیے تیار
واضح رہے کے ٹو سر کرنے والوں میں سرباز خان علی آباد، ثمینہ بیگ، عبدل جوشی شمشالی، اعجاز کریم علی آباد، سلطانہ شمشالی، فریاد شمشال، شیرزاد کریم علی آباد، علی محمد سدپارہ اور محمد علی سدپارہ شامل تھے۔