تم میرے ساتھ ہو یا نہیں؟

ہفتہ 1 اپریل 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 خاتون جج محترمہ زیبا چوہدری اگر ان کی خواہش یا فائدے کے بجائے آئین اور قانون کے مطابق یعنی میرٹ پر چلے تو عمران خان حسبِ عادت نہ صرف خود دھمکی و دشنام پر اتر آتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا کے میدان کارزار میں شعور اور دلیل سے عاری لیکن گالم گلوچ کے تیر و تفنگ سے مسلح اپنے نیم وحشی دستوں کو فوراً چڑھائی کرنے اور ادھ موا کرنے کا حکمِ چنگیزی صادر کرتے ہیں۔

بس پھر ایک غول اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں سمیت امڈ پڑتا ہے لیکن اس شور و غل میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ہدف کا جنس اور اس کا جرم کیا ہے؟

عمران خان کی ‘صرف میں’ کا یہی رویہ دراز ہوتا ہوا اعلیٰ عدلیہ کے سینیئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ بلکہ ان کی اہلیہ کے دامن و دہلیز تک بھی جا پہنچتا ہے۔

لیکن محترم ترین منصفی کی آڑ میں کراہت آمیز سہولت کاری کرنے والے ثاقب نثار سے جسٹس جاوید اقبال اور عظمت سعید شیخ سے جسٹس کھوسہ تو کیا ‘ٹرکوں اور ٹاؤٹوں سے دامادوں اور بیگمات’ کی بدرنگ علامتوں سے شہرت پاتے ان کرداروں پر بھی موصوف داد و تحسین کی گُل پاشی سے باز نہیں آتے جنہوں نے منصفی کے قابلِ احترام پیشے اور باوقار منصبوں کا وہ حشر کیا کہ من حیث القوم ہم مہذب دنیا کے سامنے 139 کے شرمناک عدالتی درجے پر گردنیں جھکانے کھڑے ہیں۔

نظریات، سیاست، جدوجہد، قومی مفاد یا ملک کی ترقی کا اس حشر بداماں سیاست سے کیا رشتہ و پیوند؟

یہاں تو معاملہ میرٹ، انصاف، ایمانداری اور اصول پسندی کے بجائے صرف اسی ایک نقطے سے جڑا ہے کہ کہاں اور کونسا شخص مجھے ‘وارا’ کھاتا ہے اور کون میرے راستے کی دیوار بنتا ہے اور پھر اسی ‘بیانیے’ کو ایک بے مغز ہجوم آگے بڑھاتا رہتا ہے۔

پہلے سیاست کے سینے میں صرف دل نہیں ہوتا تھا لیکن عمران خان کی کرشماتی شخصیت نے اس پر وہ سحر پھونکا کہ دماغ سے شعور اور کردار سے حیا تک سب کچھ پل بھر میں غائب کرکے رکھ دیا ہے۔

یہ اسی کرشماتی شخصیت کا معجزہ ہے کہ فارن فنڈنگ، توشہ خانہ، ملک ریاض، عثمان بزدار، فرح گوگی، ہیرے کی انگوٹھی اور زلفی بخاری جیسے پہاڑ سے حقائق قبیلہ ‘صم بکم’ کی نظروں سے عنقا کردیے جاتے ہیں اور ان کی جگہ ہر مخالف کی تصوراتی چوری کسی دیوہیکل حقیقت کی مانند نہ صرف پیش کی جاتی ہے بلکہ حکم شاہی سنتے ہی سوچ و سوال سے محروم غول ناچتے ناچتے اور گالیاں دیتے دیتے ہلکان ہوجاتےہیں۔

لیکن اس سے کیا سروکار کہ حقائق اور سچائی ہے کیا؟

سمجھ بوجھ کس بلا کا نام ہے؟

اور ‘چپڑاسی’ کی وزارت سے ‘سب سے بڑے ڈاکو’ کی پارٹی صدارت تک رسائی سے پھوٹتی رسوائی میں ان کی بے عقلی و بے خبری کا حصہ اور کردار کیا ہے؟

خان صاحب کے نزدیک صحافت بھی صرف وہی ہے جو ان کے اقتدار کے راستے میں حائل ہر ‘رکاوٹ’ کو عزت و آبرو سے بھی محروم کردے اور خان صاحب کے ہر جرم ناروا کو تریاق و مسیحائی بھی بناکر پیش کرے۔

پھر بڑے بڑے فارم ہاؤسز، لگژری لائف اسٹائل، لمبی لمبی گاڑیاں اور برینڈڈ طرزِ زندگی تو کیا غلیظ زبان، بدترین کرپشن، اخلاقی جرائم اور پیشہ ورانہ بددیانتی کو بھی اعلیٰ کردار، دیانتداری، حق گوئی اور بہادری کے القابات فراہم کیے جاتے ہیں۔

لیکن آپ کی پوری صحافیانہ زندگی بھی دیانت اور ایمانداری کے ساتھ مبنی بر حقائق صحافت پر استوار کیوں نہ ہو، مگر خان صاحب کے کسی جھوٹ، کسی یوٹرن، کسی ناکامی یا کسی غلطی کی نشاندہی اگر آپ کر بیٹھیں تو پھر آپ کو فوری طور پر سلسلہ عمرانیہ کے مشہور زمانہ ‘لفافہ’ کی سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔

اور پھر ایک سفاک سنگ باری نہ صرف آپ کے اجلے پیرہن اور آئینہ رو کردار کو لہو لہان کرکے چھوڑے گا بلکہ ماں کی تقدس اور بہن کی حرمت کو بھی سرِ بازار اس غول کے ہاتھوں ایک سفاکی اور بے حسی کے ساتھ اچھالتا ہوا دیکھیں گے۔

اگر آپ سیاست میں ہوں اور اپنی دولت یا مقبولیت کی بنیاد پر کسی بھی اسمبلی میں خان صاحب کے لیے ایک سیٹ کا اضافہ کرنے کی استعداد رکھتے ہوں تو آپ پر اس بنی گالہ یا زمان پارک کے وہ دروازے چوپٹ کھول دیے جاتے ہیں جن کے باہر بے معنی سوچوں، بدنما نعروں اور بے ہنگم رقص میں مشغول ایک ہجوم نے کار زیاں کو جہاد سمجھ کر بھنگڑے ڈالے ہوتا ہے۔

اور پھر جوں ہی اندر داخلے کا اذن ملتا ہے تو آپ کے گلے میں پارٹی کا وہ سہ رنگی پٹہ ڈالا جاتا ہے جو آپ تو کیا آپ کے اجداد کے جرائم تک کو بھی پلک جھپکتے میں صاف اور شفاف بنا دیتا ہے۔

پھر کہاں کا ڈکٹیٹر ایوب خان اور کہاں کا غاصب ضیاالحق اور ان کا بدرنگ کردار یا ان کی اولادیں۔

حتی کہ کہاں شیخ رشید اور بابر اعوان کی ہرزہ سرائی یا جمشید دستی کی طعنہ زنی۔

صرف پٹہ پہننے کی دیر ہوتی ہے! باقی کام عمران خان پر چھوڑ دیں جو مدح و قصیدہ کا اشارہ دیں گے تو پھر دیکھتے جائیں کہ۔۔۔

پھر نکل آئے ہوسناکوں کے رقصاں طائفے

یہی رویہ قدرے مزید شدت کے ساتھ عسکری ادارے اور جرنیلوں کے حوالے سے بھی ہے۔ اگر آپ اس ادارے میں کسی ذمہ دار منصب پر فائز ہیں تو پھر آپ آئین کے ساتھ بے شک غداری بھی کریں، اپنا حلف بھی توڑیں، ادارے اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دیں اور کرپشن کے بدترین الزامات بھی ہوں لیکن اگر آپ اپنے منصب کو خان صاحب سے مطابقت ذہنیت کی مانند استعمال کریں گے تو پھر آپ پرویز مشرف، عاصم باجوہ اور فیض حمید جیسے کردار کے حامل ہی کیوں نہ ہوں آپ کو عظیم اور زبردست کہا جائے گا اور پھر مستند ہے ان کا فرمایا ہوا اور سوشل میڈیا کی جاہلیت اور جعلسازی اس فرمان امروز کو اچک لے گا۔

لیکن اگر کوئی آئین و قانون کی حرمت کا پاس کرے اور اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے خود کو اور اپنے ادارے کو سیاست سے دُور رکھے یا بالفاظ دیگر فیض حمید بننے سے انکار کرے تو اشارہ دے کر ارسلان بیٹا اور مشوانی ٹائپ ‘مشینیں’ متحرک ہوجاتی ہیں۔

سو بہت سارے بدنصیبوں میں گھرے ہوئے اس مملکتِ خداداد کو ایک عہد ستم کیش کا سامنا ہے۔

وہ عہد جب معزز اور معتبر لوگ بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں بے بسی کا شکار ہیں۔

وہ عہد جب انصاف اور عدل کی فروخت اور دلالی کے لیے سرِعام ٹرکوں کی بدرنگ علامتیں استعمال ہو رہی ہیں۔

وہ عہد جب پارلیمان اور کمزور ادارے منتشر، معیشت برباد اور انصاف مفقود ہے۔

اور ہاں۔۔۔

ایسی فضا اور ایسے دور میں مقبولیت عمران خان جیسے سیاستدان اور اس کی سیاست کی نہیں ہوگی تو کیا عبدالستار ایدھی، مادام رتھ فاو جیسے لوگوں کی ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp