میں اور وہ ۔۔۔ !

اتوار 2 اپریل 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وہ اور میں پہلی جماعت سے ایک ہی اسکول میں زیرِ تعلیم رہے۔ میں انگلینڈ سے اپنی مونٹیسوری مکمل کرکے اس شہر آئی جبکہ وہ شروع سے یہاں کا باسی تھا۔ ہم دونوں میں سنجیدگی، حقیقت پسندی اور جستجو کا عنصر مشترک تھا۔ اسی بنا پر نصابی کتب کے علاوہ دوسری کتابیں بھی ہمارے زیرِ مطالعہ رہتیں سو ہماری آپس میں خوب نبھتی تھی۔

وہ اپنی 2 بہنوں کا اکلوتا بڑا بھائی اور میں 2 بڑی بہنوں کی چھوٹی بہن۔

اس کے والدین سرکاری کالج میں بطور استاد تعینات تھے جبکہ میرے والد برطانیہ سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ایک غیر سرکاری ادارے میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔

ہم دونوں کم و بیش ایک جیسے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے جہاں علمی اور ادبی ماحول ہمارے دیگر دوستوں کے مقابلے میں مختلف تھا۔

اسکول چونکہ کیمبرج سسٹم کے تحت تھا تو بلاشبہ تقریباً اکثریت نسبتاً خوشحال گھرانوں کے بچوں پر مشتمل تھی۔

وہ اور میں ان بچوں میں شمار ہوتے تھے جنہیں واقعی اس بات کا احساس تھا کہ ہمارے والدین کن حالات کا سامنا کرکے ایسے مہنگے اسکول کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔

اس تلخ حقیقت کا ادراک ہی تھا جو ہم دونوں اسکول کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں ہمیشہ آگے آگے رہتے تھے۔

وہ والی بال کا نمایاں کھلاڑی ہونے کے ساتھ ایک بہترین مقرر بھی تھا۔ کئی گولڈ میڈل اس کے گلے کا ہار ہوچکے تھے۔

میرا چونکہ الرجی کا مسئلہ تھا تو کھیل کود کے میدان کو چھوڑ کر میں نے موسیقی کی تعلیم لی جو 4 سال پر محیط تھی۔ میں اپنے پسندیدہ موسیقار بیتھوون اور موٹزارٹ کی دُھنیں بڑے شوق سے بجایا کرتی تھی۔

ہماری نسل ملینیم کی پیداوار ہے اور گلوبل ولیج کے دور میں اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ نے ہر بچے کے ہاتھ میں ایک پوری دنیا تھما دی تھی۔

ہم دونوں کی یہ غالباً ذہنی اختراع تھی کہ ہم اپنے ان کلاس فیلوز سے مالی طور پر بے شک برابری نہ کرسکیں مگر ذہنی قابلیت پر یقیناً برتری رکھتے ہیں اور ہماری اس قابلیت پر ہمارے تمام دوست نہ صرف رشک کرتے تھے بلکہ ہماری حوصلہ افزائی میں بھی کوئی کمی نہیں کرتے تھے۔

وہ اسکول کا سنہرا دور تھا۔ ہمارے چند دوست پورے ہفتے اسکول جانے کا بوجھ اتارنے کے لیے ویک اینڈ پر اکثر پارٹی کا اہتمام کرتے تھے۔

میں اور وہ اکثر تنہائی میں کوئی اچھی کتاب پڑھنے کو ترجیح دیتے اور ویک اینڈ پارٹی سے کنی کترا کے نکل جاتے۔

ہم دونوں کو پختہ یقین تھا کہ اے لیول کرنے کے بعد ہمیں بیرونِ ملک کی کسی بہترین درسگاہ میں اسکالرشپ داخلہ مل جائے گا۔

اے لیول کے پہلے سال سے ہی ہم سارے دوست سر جوڑ کر مختلف یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے فارم فل کرنے بیٹھ گئے۔

لیکن کسی بھی غیر ملکی درسگاہ میں داخلے سے قبل انگریزی زبان پر دسترس کا سرٹیفیکٹ آئی ایلٹس کا ٹیسٹ دینا لازمی تھا جس کی فیس غیر معمولی حد تک زیادہ تھی۔ خیر ٹیسٹ دیا۔

ٹیسٹ کے نتائج ہم دونوں کے مختلف آئے۔ انگریزی زبان پر عبور کے باوجود وہ پہلے ٹیسٹ میں متعلقہ نمبر حاصل نہیں کرسکا لیکن دوبارہ بھاری فیس جمع کروانے پر بہترین نمبروں سے کامیاب ہوگیا۔

یہ اس کی زندگی میں تعلیمی کاروبار کے بیوپاریوں کی طرف سے پہلا جھٹکا تھا۔

ہمارے تمام دوست جو کلاس بنک کرنے اور ویک اینڈ پارٹیوں کا ناغہ کرنے سے کبھی غافل نہ ہوتے تھے وہ روزانہ ہم دونوں کو بہترین یونیورسٹیوں میں داخلہ ملنے کی خوشخبریاں جوش و خروش سے سنا رہے تھے۔

چونکہ ہم دونوں کا مدعا صرف داخلہ حاصل کرنا نہیں بلکہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں غیر معمولی کارکردگی پر اسکالرشپ یا فیس کی کٹوتی تھا، اس لیے ایسی درسگاہ میں داخلے کی خبر کے منتظر تھے جو ہماری قابلیت کو ترجیح دے۔

اے لیول کے فائنل میں ہم دونوں نے اے اور اے اسٹار حاصل کیے تھے۔ سونے پر سہاگہ کہ اسے اپنے کھلاڑی اور مقرر ہونے پر ناز تھا اور مجھے موسیقی کی تعلیم پر فخر۔

سوچا اب تو مغربی یونیورسٹیوں کے دروازے ہم دونوں کے لیے وا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن جیسے جیسے دن گزرتے جارہے تھے وسوسے اور خدشات ہم دونوں کو ڈرانے لگے۔

خدا کی قدرت کہیے کہ جو کلاس فیلوز ‘ای’ اور ‘ یو’ گریڈز کے حقدار ٹھہرے تھے وہ سب ایک ایک کرکے دنیا کی بہترین اور مہنگی درسگاہوں میں باآسانی داخلے اور ویزے حاصل کرتے چلے گئے۔

ہماری ایک بہت پیاری دوست جس کو پڑھائی سے قطعی دلچسپی نہیں تھی۔ سال میں کُل 2 ماہ ہی اسکول گئی تھی۔ ہم سب بشمول خود اس کو یہ اندیشہ تھا کہ اے لیول کے بعد سوائے گھر بسانے کے وہ اور کیا کرسکتی ہے۔

لیکن حیرانی تب ہوئی جب ہماری وہ دوست بھی انگلینڈ کی مہنگی ترین یونیورسٹی میں اپنا فاؤنڈیشن کورس کرنے کے لیے پر تول رہی تھی۔

اپنے فیئر ویل میں معصومیت سے بولی کہ پڑھنا کس نے ہے یار! موم ڈیڈ نے کہا ہے کہ کم از کم انگلینڈ کی ڈگری کی وجہ سے رشتے تو اچھے آئیں گے۔

ہمارے گروپ کے 2 دوست واقعی وہاں داخلہ پانے کے اہل تھے۔

خدا کے کرم اور پیسے کی طاقت نے ہم دونوں کی ذہنی اور شعوری برتری کو مات دے دی تھی۔

وہ بہت دل گرفتہ تھا اور میں بہت بے چین کہ ہمارا کیا ہوگا۔

کسی بھی درسگاہ کی جانب سے کوئی حوصلہ افزا جواب موصول نہیں ہوا تھا۔

بنا اسکالرشپ کے جب فیس اور رہنے سہنے کا تخمینہ ڈالر اور پاؤنڈ سے پاکستانی روپیے میں لگاتے تو حواس باختہ ہوجاتے۔

میرٹ کس چڑیا کا نام ہے اور اس چڑیا کی کیا وقعت ہے ہم دونوں کو اس کا اب مکمل احساس ہوچکا تھا کہ بنا دولت کے نہ آپ کے ستاروں بھرے گریڈ کسی کام کے ہیں اور نہ ہی آپ کی غیر نصابی کارنامے کسی توجہ کے مستحق۔

وہ آہستہ آہستہ اپنے خواب خود کرچی کرچی کرنے لگا کیونکہ اس کے گھر کے حالات اسکالرشپ کے بنا بیرون ملک پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

اس نے لاہور کے ایک نامی گرامی تعلیمی ادارے میں داخلے کے لیے تگ و دو شروع کردی اور بالآخر کامیاب بھی ہوگیا۔

میرے والدین نے اس شرط کے ساتھ کہ میں نوکری کرکے رہنے سہنے کا خرچہ خود اٹھاؤں گی، میرا داخلہ کینیڈا کی میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں اس لیے کروا دیا کیونکہ وہاں کی فیس بین الاقوامی معیار کی دوسری یونیورسٹیوں کے مقابلے میں آدھی تھی اور دوسری وجہ میری خالہ کا وہاں ہونا تھا۔

ہم دونوں لاہور اور کینیڈا جانے سے قبل ملے۔

میں نے اس کے سامنے مصلحتاً پاکستان سے فرار کی خوشی کو لگام دی ہوئی تھی کہ میں اس کا غم سمجھ سکتی تھی۔ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک نہ جانے کا ملال اس کے چہرے سے عیاں تھا۔

وہ ہم سب دوستوں سے زیادہ لائق، دُور اندیش اور باصلاحیت تھا۔ یہ اس کی نہیں اس نظام کی شکست تھی جو سوائے دولت کے کسی اور خوبی کو پرکھنے کا عدسہ ہی نہیں رکھتا تھا۔

میں کینیڈا آگئی تو ہماری بات چیت وقت گزرنے کے ساتھ کم ہوتے ہوتے بند ہوگئی سوائے انسٹاگرام پر ایک دوسرے کی اسٹوری پڑھنے کے۔

ایک ماہ میں ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہاں زندگی ویسی نہیں جیسی فلموں میں نظر آتی ہے۔

ٹھٹھر تی ہوئی سردی ہو یا برف باری، سرد ہواؤں کے تھپیڑے ہوں یا اولے برساتی بارش، ہر حال میں تین بسیں بدل کر یونیورسٹی اور کام پر جاتے ہوئے مجھے گھر کا سکون یاد آتا۔

یہاں آنے سے پہلے سوچتی تھی کہ موسیقی کا بھی ایک مضمون رکھوں گی یا کسی کمیونٹی سینٹر میں پیانو کی کلاسیں لے لیا کروں گی لیکن ڈیڑھ سال ہونے کو آیا تھا اور مجھے پیانو بجانے کے لیے کوئی ادارہ نظر نہیں آیا۔ ایسے میں مجھے اپنے پیانو ٹیچر کی کلاس بہت یاد آتی اور میری مخروطی انگلیاں خوبخود ہوا میں تھرکنے لگتی۔

بیمار ہوتی تو اپنی اماں کے ہاتھ کے بنے کھانے اور اباّ کی توجہ بے طرح یاد آتے۔

تنہائی میں وہ تمام محفلیں اور اس میں شرکت کرنے والے وہ تمام احباب یاد آتے جن کی پر مغز باتیں سن کر میں بڑی ہوئی تھی۔

وطن عزیز نہ تھا سیف، پھر بھی غربت میں

کسی کو دل سے بھلانے کا حوصلہ نہ ہوا

ایک ویرانی سی ویرانی تھی!

تیسرے سیمسٹر کے دوران مجھے الرجی کا شدید اٹیک ہوا جس کی بنا پر میں دو امتحانات دینے سے قاصر رہی لیکن بروقت اس کی اطلاع اپنے پروفیسرز کو کردی۔

طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ڈاکٹر کو دکھانا مناسب سمجھا۔ انشورنس کے باوجود دو دن بعد ڈاکٹر کا اپائمنٹ ملا۔ دو بسیں بدل کے ایک گھنٹے کے سفر کے بعد جب کلینک پہنچی تو معلوم ہوا کہ آج تو ڈاکٹر آیا ہی نہیں۔ اس وقت اپنے علاقے کے ڈاکٹر یاد آئے جو ہمہ وقت اپنے کلینک پر موجود ہوتے تھے۔

طبیعت بحال ہوئی تو اس یقین کے ساتھ یونیورسٹی پہنچی کہ میرے یہ دو امتحانات اب لے لیے جائیں گے لیکن یہ جان کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی کہ مجھے ان دو پرچوں کے لیے پھر سے رجسٹریشن اور پورے سیمسٹر کی فیس ادا کرنی ہوگی۔

میں نے کوآرڈینیٹر اور اپنے پروفیسرز کو ای میلز کی پر جواب ندارد۔۔۔۔ انتظامیہ کے سامنے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ اپنی مالی حالات سے انھیں آگاہ کیا، لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔

ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک کے نوجوانوں کی مجبوریوں سے یہ سامراجی ممالک خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

‘ دور کے ڈھول سہانے’ والی کہاوت اب سمجھ میں آئی تھی۔

اپنی یہ آب بیتی لکھنے کے لیے ابھی انسٹاگرام کھولا ہی تھا تو اس کی کہانی پر میری نظر ٹھہر گئی اور میں اپنی ساری مشکلات کا دکھڑا بھول کر اس کی کہانی پڑھتے ہوئے ان تکلیفوں کا اندازہ لگانے لگی جو وہ کئی سال سے سہہ رہا تھا۔

وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر لاہور سے واپس اسلام آباد آگیا تھا کیونکہ فیس کی مد میں کئی گنا اضافہ اس کی اسطاعت سے باہر تھا۔ کئی ماہ وہ شدید نفسیاتی کشمکش کا شکار رہا۔

لیکن جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ اس طرح نہ وہ اپنے ساتھ بھلائی کر رہا ہے نہ والدین اور بہنوں کے ساتھ۔

ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے بہتر اس نے اپنی دونوں بہنوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا اپنا فرض سمجھا۔ جس اسکول میں ہم سب نے پڑھا تھا  وہ اب وہیں ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہوگیا تھا۔

اسکول کی انتظامیہ اپنے اس قابل قدر طالب علم کے حالات سے واقف اور صلاحیتوں کی معترف تھی سو انھوں نے اسے گریجویشن کے لیے اسکالرشپ دینے کا بھی بندوبست کردیا۔

میں نے اس کی روداد پڑھتے ہی اسے فون ملایا۔

کچھ اس کی سنی کچھ اپنی سنائی۔

کچھ اس نے ہمت دلائی کچھ میں نے دلاسے دیے۔

گزرے دنوں پر ہنسے بھی اور آنے والے دنوں پر پریشان بھی ہوئے۔

البتہ زندگی نے ہم دونوں کو بہت کچھ سکھا دیا تھا کم از کم ہم اس بات پر تو متفق تھے کہ کوئی بھی سماج مکمل طور پر نہ اچھا ہوتا ہے نہ ہی برا۔

ہم دونوں کے لہجوں میں تلخی کے ساتھ ساتھ امید کی ایک کرن اب بھی موجود تھی۔ اس کا گریجویشن کے بعد ماسٹر کے لیے بیرون ملک اسکالرشپ حاصل کرنے کا خواب دیکھنا اور میرا اپنوں سے دور ہونے کے باوجود نئے راستے ڈھونڈنا حوصلہ افزاء بات ہی تو تھی۔

خواہشیں،نا آسودہ توقعات، امیدیں اور مسائل دونوں کے سانجھے تھے بس فرق اتنا تھا کہ میں پردیس میں تھی اور وہ اپنے دیس میں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp