رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا کہ ماضی میں بھی ہم نے تحریک انصاف سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی لیکن اس وقت ان کی اڑان بہت اونچی تھی۔ آج عمران خان صاحب جیل کے اندر ہیں تو وہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔ اگر پارٹیاں اپنے فیصلے خود کریں تو ہم ہاتھ نہیں ان سے گلے ملنے کو تیار ہیں۔
وی نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا کہ اپنے حق کے لیے پرامن جدوجہد کرنا سیاسی جماعت اور عوام کا بنیادی حق ہے۔ حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ احتجاج کرنے والوں کی بات سنیں اور ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔
مزید پڑھیں: حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ختم، بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال کے باعث گوادر سمیت پورا بلوچستان جل رہا ہے۔ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہم ان لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق تو نہیں دے سکتے لیکن طاقت کا استعمال تو کرسکتے ہیں۔ اسی پالیسی کے نتیجے میں آج گوادر جل رہا ہے۔
’اگر احتجاج کرنے والے احتجاج کے بعد ہنگامہ آرائی کرتے تو حکومت کے پاس یہ سب کرنے کا جواز تھا لیکن حکومت کی جانب سے جلسہ کرنے سے قبل ہی قومی شاہراہیں بند کر دی گئی اور موبائل فون سگنل معطل کر دیے گئے جو حکومت کے خوف کی نشانی ہے‘۔
حکومت سے کنارہ کشی کیوں اختیار کی
ایک سوال کے جواب میں مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا کہ میں کسی وزارت یا مراد کے حصول کے لیے حکومت کا حصہ نہیں بنا تھا بلکہ عوامی مسائل کے حل کے لیے حکومت کا دامن تھاما تھا۔ لیکن جلد ہی مجھے معلوم ہوا کہ اس حکومت کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں جبکہ فیصلے کہیں اور سے ہو رہے ہیں تو ایسی حکومت کے ساتھ چلنے کا کیا جواز پیدا ہوتا ہے۔
’میں نے حکومت میں شمولیت اپنے حلقے میں نالیاں یا نلکے لگانے کے لیے نہیں کی تھی بلکہ عوامی مسائل کے مستقل حل کے لیے حکومت کا حصہ بناتھا‘۔
گوادر پر وزیراعلی سے ملاقات میں کیا بات ہوئی
مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان سے کل گوادر کے معاملے پر ملاقات ہوئی جس میں، میں نے گوادر میں پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق انہیں آگاہ کیا۔ دیکھیں ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک سڑک پر احتجاج کو روکنے کے لیے پورے بلوچستان کو بند کر دیا جائے یہ تمام تر نکات وزیراعلی بلوچستان کے سامنے رکھے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہم راستے بند نہ کرتے تو لوگ بڑی تعداد میں گوادر تک آتے، حکومت لوگوں کو کیسے روک سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت گوادر میں راستے بند ہونے کی وجہ سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہیں غذائی قلت پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے جبکہ پانی کا بحران بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، لوگ اپنے مریضوں کو اسپتال تک نہیں لے جا سکتے، اس طرح حکومت کسی احتجاج کو مینج کرتی ہے؟
’ہم نے حکومت سے کہا کہ آپ مذاکرات کے لیے قدم بڑھائیں اور اس معاملے پر کوئی کمیٹی تشکیل دیں ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن یہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک سڑکیں بحال نہیں ہوتی اور موبائل فون سروس کو بحال نہیں کیا جاتا‘۔
یہ بھی پڑھیں: کیا بلوچستان حکومت اور بلوچ یک جہتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے؟
ان کا کہنا تھا کہ حکومت پیچھے ہٹے گی تبھی بات چیت ہوسکے گی، مجھے وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہم شام تک آپ کو اگاہ کر دیں گے لیکن اب تک ان کی جانب سے دوبارہ رابطہ نہیں کیا گیا۔ یہ اقدام قابل مذمت ہے کہ آپ ہزاروں لوگوں کا احتجاج روکنے کے لیے لاکھوں لوگوں کی زندگی متاثر کریں۔
’وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایوان میں کھڑے ہو کے کہا تھا کہ ہم قومی شاہراہوں کو بند نہیں کریں گے لیکن اس کے باوجود یہ کیا گیا۔ میں انتظار کر رہا ہوں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان مشورہ کرکے مجھے جواب دیں، اب وہ جس سے بھی مشورہ کرنا چاہتے ہیں تو کریں‘۔
کیا ثالثی کی پیشکش کو قبول کریں گے
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ جب تک حکومت موبائل فون سروس معطل رکھے گی اور قومی شاہراہوں کو بند کرکے رکھے گی، تب تک میں ثالث کا کردار ادا نہیں کروں گا۔ حکومت قومی شاہراہیں کھولے اور موبائل فون سگنل بحال کرے میں ثالثی کے لیے حاضر ہوں، کیونکہ گوادر میں معاملات زندگی ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں، پانی اور کھانے کی اشیاء ناپید ہوتی جارہی ہیں۔
’اگر میری بات کا اثر نہ ایوان میں پڑے نہ ملاقات میں پڑے تو ایسی صورت میں دھرنے کے شرکا کے ساتھ جا کر بیٹھ جاؤں گا۔ پھر گوادر میں ایک دھرنا ڈاکٹر ماہ رنگ دے رہی ہوں گی اور دوسرا دھرنا مولانا ہدایت الرحمٰن دے رہا ہوگا۔
اگر آپ ثالث بنے اور حکومت نے اپنے وعدے پورے نہ کیے تو کیا کریں گے؟
انہوں نے کہا کہ دیکھیں احتجاج کرنے والے بھی با اختیار ہیں اور حکومت بھی اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔ میں صرف دونوں فریقین کو ایک میز پر لا سکتا ہوں اس کے بعد دونوں فریقین نے بات چیت آپس میں کرنی ہے اور معاملات طے کرنے ہیں۔ میرا کام دونوں فریقین کو ایک میز پر لانا ہے۔ بعد ازاں اگر حکومت اپنے کیے وعدے پورے نہیں کرتے تو اس کا میں کچھ نہیں کرسکتا۔
جماعت اسلامی کا دھرنا کوئٹہ کب آرہا ہے
مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ جو بھی تاریخ امیر جماعت اسلامی دیں گے، ہم کوئٹہ میں گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاج کریں گے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی بلوچستان کی ایک نشست ہونی ہے جس میں معاملات پر تفصیلی بات چیت بھی ہوگی۔ جہاں تک بات رہی سیاسی جماعتوں کو شامل کرنے کی تو جماعت اسلامی تمام سیاسی جماعتوں سے ہاتھ ملاتی ہے۔