آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟

جمعرات 1 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، رواں برس کی مون سون بارشوں کا آغاز ہوچکا ہے اور گزشتہ روز تھرپارکر میں دوران بارش آسمانی بجلی گرنے سے ایک ہی خاندان کے 6 افراد ہلاک ہوگئے۔ جس میں 2، 8سالہ بچیاں، ایک 10سالہ بچہ، 2 نوجوان اور 1 بزرگ شامل ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق تھرپاکر کے گاؤں بانٹاڑیو میں بھی آسمانی بجلی کی زد میں آکر 40سالہ شخص ہلاک ہوا، اسی طرح چھاچھرو کے گاؤں خمیسو منگریو میں بھی بجلی گرنے سے 11سالہ بچی ہلاک ہوئی۔

خیال رہے کہ اس کے علاوہ محکمہ وٹرنری کے مطابق آسمانی بجلی گرنے سے 20 سے زائد مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: آسمانی بجلی گرنے سے 25افراد جاں بحق، قاتل بجلی سے محفوظ رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

اس سے قبل اپریل میں بھی صوبہ بلوچستان اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ بارش کے دوران آسمانی بجلی گرنے کی وجہ سے غیر معمولی واقعات سامنے آئے، جس میں تقریبا 26 افراد ہلاک ہوئے۔

آسمانی بجلی کے کیسز میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟ اور اس سے کیسے محفوظ رہا جا سکتا ہے؟

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات مہر صاحبزاد خان نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر پنجاب اور سندھ کے کچھ خاص علاقوں میں آسمانی بجلی گرنے کے بہت سے افسوسناک واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔

مزید کہا کہ آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں حالیہ اضافہ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے ہوا ہے، کیونکہ دنیا کے موسم میں شدت اور قدرتی نظام میں تیزی سے نمایاں تبدیلیاں آرہی ہے، اور اس مسئلہ سے فوری نہیں نمٹا جاسکتا۔ اگر گزشتہ 25 سال میں آسمانی بجلی کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، تو اس کی شدت سے نمٹنے کے لیے 50 برس لگیں گے۔

’گرج چمک کی بارش کے دوران آسمانی بجلی کے واقعات ہوتے ہیں۔ گرج چمک کی 3 اقسام ہوتی ہیں، پہلی بادل سے بادل تک، دوسری بادل سے ہوا تک، اور تیسری سب سے خطرناک بادل سے زمین تک، دراصل یہ آسمان سے بجلی کا اخراج ہوتا ہے‘۔

آسمانی بجلی گرنے کے خطرے سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ آسمانی بجلی گرنے کے خطرے سے بچاؤ کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ فولادی کنکریٹ اور دیگر مستحکم عمارتوں میں پناہ لیں۔ اگر بجلی ان عمارتوں پر گر بھی جائے تو آپ محفوظ رہیں گے کیونکہ بجلی دیواروں کے ذریعے زمین میں منتقل ہو جائے گی۔

اگر کہیں کوئی لکڑی کی مضبوط عمارت ہو اور آپ وہاں پناہ لے لیں، تو بھی محفوظ رہیں گے۔ اور اگر آپ کسی میدان یا کسی کھلی جگہ پر ہیں، اور آپ کو بادلوں کی شدید گرج چمک محسوس ہو تو فوراً کسی عمارت میں پناہ لے لینا بہترین حل ہے۔

یہ پڑھیں: آسمانی بجلی کی پیش گوئی کرنے والا پہلا ڈیٹیکٹر پاکستان میں نصب

اس کے علاوہ گاڑیوں، ٹرینوں، بسوں، اور ہوائی جہازوں میں بھی آپ محفوظ رہ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھڑکیاں بند ہوں اور دھات سے بنے کسی بھی حصے کو چھونے سے گریز کریں۔

اگر قریب میں کوئی عمارت یا پناہ گاہ نہ ہو، اور  خود کو محفوظ رکھنے کا کوئی اور راستہ بھی نہ ہو تو اس صورت میں اُکڑوں بیٹھ جائیں۔ دونوں پیروں کو ملا کر گھٹنوں کو خم دیں اور پنجوں کو نیچے رکھتے ہوئے زمین سے کم سے کم حصہ چھوئیں۔ کانوں کو پھٹنے سے بچانے کے لیے دونوں ہاتھوں سے کانوں کو اچھی طرح ڈھانپ لیں۔

اوپر سے گزرنے والی برقی تاروں کے نیچے کھڑے ہونے سے بھی بجلی گرنے کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ تاریں آسمانی بجلی کو منتقل کرتی ہیں۔

تحقیق کیا کہتی ہے؟

واضح رہے امریکا میں کیلی فورنیا کی برکلی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ رومپس نے اپنی ایک تحقیق میں کہا ہے کہ ’اگر سنہ 2000 میں بجلی 2 مرتبہ گری تو سنہ 2001 میں 3مرتبہ گرے گی۔ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے یہ حساب بھی لگایا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں ہر 1 ڈگری کے اضافے سے آسمانی بجلی کے گرنے کے واقعات کی شرح 12 فیصد سے بڑھ جائے گی۔

موسمیاتی تبدیلیوں اور بجلی گرنے کے واقعات کے آپس میں تعلق کے حوالے سے کلائمیٹ ایکسپرٹ ڈاکٹر رضوان چوہدری کا کہنا تھا کہ آسمانی بجلی اور موسمی تغیرات کے درمیان تعلق ہے، کیونکہ آسمانی بجلی اکثر ایسے حالات میں پیدا ہوتی ہے جب ہوا میں نمی، گرمائش اور بادلوں کی موجودگی کی وجہ سے حرارت میں تیزی سے تبدیلی ہوتی ہے۔

یہ عمل عام طور پر تھنڈر اسٹورم کی صورت میں ہوتا ہے۔ جس میں بادلوں کا ٹکراؤ، گرم ترین ہوائیں، اور نمی کی موجودگی میں الیکٹریکل چارجز جمع ہوتے ہیں۔ جو بعد میں آسمانی بجلی کی صورت اختیار کرتے ہیں، اور آسمانی بجلی بن کر خارج ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ابھی اس پر ریسرچ ہو رہی ہے، لیکن مزید اور واضح ریسرچ کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ آسمانی بجلی کے امکانات اس وقت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ جب موسم ایک حد سے زیادہ شدت اختیار کرتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے کیا اثرات ہیں؟

کلائمیٹ ایکسپرٹ محمد توحید نے اس حوالے سے کہا کہ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ گرم درجہ حرارت اور بہتر موسمی حالات کی وجہ سے بجلی چمکنے کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ تحقیقات بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور شدید گرج چمک کے واقعات کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ درحقیقت آب و ہوا کی تبدیلی سے جڑا ہوا ہے، بنیادی طور پر گرمی کا ماحول اور نمی کی سطح میں تبدیلی کی وجہ سے جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا ہے، فضا میں زیادہ نمی برقرار رہتی ہے۔ جس سے گرج چمک کے ساتھ مزید شدید طوفان آتے ہیں، جو بجلی کی تشکیل کے لیے سازگار ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی نے امریکا اور میکسیکو میں ہیٹ ویو کا امکان 35 گنا بڑھا دیا

کئی عوامل بجلی کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں، ’گرم درجہ حرارت‘، ایک گرم تر ٹراپوسفیئر طوفان کی نشوونما کے لیے دستیاب توانائی کو بڑھاتا ہے، جس کے نتیجے میں مضبوط اپڈرافٹس اور زیادہ شدید گرج چمک کے طوفان ہوتے ہیں، جو بجلی کی بڑھتی ہوئی سرگرمی سے منسلک ہوتے ہیں۔

’نمی میں اضافہ‘، سمندر کی سطح کے بلند درجہ حرارت کے نتیجے میں فضا میں زیادہ نمی دستیاب ہوتی ہے، جس سے زیادہ زور دار محرک طوفان اور اس کے نتیجے میں زیادہ بجلی گر سکتی ہے۔

’ایروسول ارتکاز‘، ایروسول کی بڑھتی ہوئی سطح کلاؤڈ چارجنگ کے عمل کو بڑھا سکتی ہے، گرج چمک کے برقی ڈھانچے کو تبدیل کر سکتی ہے اور ممکنہ طور پر زیادہ بجلی کا باعث بن سکتی ہے۔ مجموعی طور پر، جبکہ موسمیاتی تبدیلی بجلی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا ایک اہم محرک ہے، مختلف ماحولیاتی عوامل کا تعامل مستقبل کے بجلی کے پیٹرن کے بارے میں پیشگوئیوں کو پیچیدہ بناتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp