بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گوادر کی میرین ڈرائیو پراحتجاجی دھرنا 5ویں روز بھی جاری ہے، حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات کے 2 دور بھی اس مسلسل احتجاج کوختم کرانے میں کارگر ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔
ادھر احتجاج کی شدت میں اضافہ کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد شہر کے علاقے سریاب روڈ، قمبرانی روڈ ، ارباب کرم خان روڈ، بروری روڈ اور مشرقی و مغربی بائی پاس میں دوکانیں جزوی طور پر بند ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چمن دھرنا 9 ماہ بعد ختم، حکومتی یقین دہانی کے باوجود دوطرفہ آمدورفت بحال نہ ہوسکی
اس کے برعکس شہر کے مرکزی علاقے میں کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر بحال ہیں اس کے علاوہ شہر میں ٹریفک بھی معمول کے مطابق رواں دواں ہے، تاہم گزشتہ 5 روز سے ریڈ زون کو جانیوالے تمام راستوں کو خاردار تاروں اور کنٹینرز لگا کر سیل کردیا گیا ہے۔
صوبے کے دیگر اضلاع مستونگ، قلات، دالبندین، چاغی سمیت مکران ڈویژن کے مختلف علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں چوتھے روز بھی معطل ہیں، جبکہ گوادر میں گزشتہ 5 روز سے دکانیں بند ہونے کے باعث غذائی قلت کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
مزید پڑھیں: ماشکیل کے رہائشی پیدل لانگ مارچ کرتے کوئٹہ کیوں آئے؟
کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ مستونگ ، قلات اور حب کے مقام پر بند ہے جبکہ مکران کوسٹل ہائی وے پر بھی آمدورفت معطل ہے، جس کے باعث تفتان میں گزشتہ 4 روز سے ایران سے وطن لوٹنے والے زائرین پھنسے ہوئے ہیں، گوادر کے داخلی و خارجی راستے تاحال بند ہیں جسکے باعث مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
گوادر کے رہائشی صداقت بلوچ نے وی نیوز کو بتایا کہ قومی شاہراہیں بند ہونے سے جہاں پانی اور خوراک کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے وہیں علاج کے غرض سے کراچی جانیوالے مریض بھی اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاک افغان بارڈر پر 5 ماہ بعد تجارتی سرگرمیاں بحال
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے گوادر ہی کے رہائشی بخت بلوچ نے بتایا کہ ان والد عارضہ قلب میں مبتلا ہیں جنہیں علاج کی غرض سے کراچی جانا پڑتا ہے، تاہم 6 روز سے گوادر کی تمام قومی شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے والد کا گوادر میں بہترعلاج ممکن نہیں ہو پا رہا۔ ’اگر آئندہ چند روز تک صورتحال یہی رہی تو والد کی حالت گھمبیر ہو سکتی ہے۔‘