حکومت کی جانب سے گزشتہ برس پاک افغان سرحدی شہر چمن میں قائم باب دوستی کے ذریعے دوطرفہ آمدورفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا کی شرط کو لازم قرار دیا تھا، جس پر لغڑی اتحاد نے 21 اکتوبر 2023ء کو احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا تھا۔ یہ احتجاج گزشتہ روز حکومتی یقین دہانی پر 274 روز بعد بلاآخر اختتام پذیر ہوگیا۔
دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی نے تصدیق کی ہے کہ حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم کرلیے ہیں، اب چمن کے لوگ اپنے شناختی کارڈ اور افغانستان کے علاقے اسپن بولدک کے رہائشی تیزکیرا (افغان شناختی کارڈ) پر سرحد پار کرسکیں گے، جب کہ وہاں کے باقی تمام شہروں کے رہائشی افراد پاسپورٹ پر ہی سفر کرسکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: چمن میں احتجاج اور سرحد کی بندش سے تجارت کیسے متاثر ہورہی ہے؟
حکومت اور مظاہرین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے والے سابق نگران وزیر داخلہ ملک عنایت کاسی کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ کئی روز سے حکومتی نمائندگان اور احتجاجی مظاہرین سے بات کرتے رہے، جس کے بعد رفتہ رفتہ دونوں فریقین میں برف پگھلنا شروع ہوگئی اور حکومت نے مظاہرین کے مطالبات کو تسلیم کرلیا۔ حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاملات تحریری نہیں بلکہ قبائلی روایات کے مطابق زبانی وعدہ پر کیے گئے ہیں جس کی بنا پر مظاہرین نے دھرنا ختم کیا۔
’صورتحال نہ بدلی تو دوبارہ احتجاج کریں گے‘
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے احتجاجی رہنما اولس خان نے بتایا کہ کہ چند روز قبل حکومتی وفد سے ملاقات ہوئی جس میں حکومت نے ہمارے گرفتار رہنماؤں کی رہائی سمیت تمام شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے سرحد کو دو طرفہ آمدورفت کے لیے بحال کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز پرلت پر بیٹھے مظاہرین کے سامنے غوث بخش اچکزئی اور صادق خان سمیت 5 گرفتار رہنماؤں کو لا کر حکومت کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی لیکن آج صبح جب لوگ سرحد پر اپنے شناختی کارڈ لے کر پاک افغان سرحد باب دوستی پر پہنچے تو وہاں انہیں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ہمارے ساتھ 9 مئی میں ملوث عناصر جیسا سلوک کیا جارہا ہے، چمن مظاہرین
اولس خان نے بتایا کہ 30 سے 35 ہزار افراد کے مسئلے کو ابھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا، اگر آئندہ 24 گھنٹے تک صورتحال یہی رہی تو دوبارہ احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے۔ دوسری جانب دو طرفہ آمدورفت کے معاملے پر پر وی نیوز نے ضلعی انتظامیہ سے بارہا رابطے کی کوشش کی تاہم کوئی موثر جواب موصول نہیں ہوا۔
حکومت سرحدی تجارت سے متعلق اقدامات کررہی ہے، گورنر بلوچستان
حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات سے متعلق صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا تاہم گورنر بلوچستان شیخ جعفر مندوخیل کے جاری کردہ بیان کے مطابق، پاک افغان چمن باڈر تقریباً پچھلے ایک سال سے مسلسل بند ہے جس کے باعث قلعہ عبداللہ کے عوام خاص طور پر تاجر اور کاروباری حضرات مشکلات سے دوچار ہوئے۔
گورنر بلوچستان نے کہا کہ چمن پرلت کے معاملے سے وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کو وقتاً فوقتاً آگاہ کرتے رہے، آج ہماری کاوشوں اور وفاقی حکومت کے ساتھ رابطوں کے باعث یہ مسئلہ حل ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ایک سال کے دوران چھوٹے اور بڑے تاجروں کے ہونے والے نقصانات کا ہمیں خوب احساس ہیں تاہم اب موجود حکومت سرحدی تجارت کے فروغ اور معاشی سرگرمیوں کے دوبارہ آغاز کے حوالے سے مزید اقدامات اٹھا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چمن شاہراہ پر لغڑیوں کا دھرنا فورسز نے ختم کروا دیا، ٹریفک بحال
جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ ہم نے سرحدی تجارت کی دوبارہ بحالی اور فعالیت کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں، پاک افغان اور پاک ایران سرحدوں کے قریب رہنے والے لاکھوں لوگوں کو صرف سرحدی تجارت سے روزی روٹی ملتی ہے۔ سرحد کے قریب مقامی سطح پر چھوٹے چھوٹے تاجروں کی تجارت سے نہ صرف ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہیں بلکہ ان معاشی و تجارتی سرگرمیوں سے ملک اور صوبے کی سطح پر بڑے تاجروں کو بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
گورنر مندوخیل نے کہا کہ سرحدی تجارت کے فروغ اور باڈر مارکیٹس کے قیام سے نہ صرف ملک میں معاشی نظام کو مضبوط و مستحکم بنایا جاسکتا ہے بلکہ سرحد کے دونوں جانب بسنے والے لوگوں کو معاشی و تجارتی سرگرمیوں میں مشغول کرکے دوطرفہ تعلقات کو وسعت دی جاسکتی ہے۔