لہو سے میں نے لکھا تھا جو کچھ دیوارِ زنداں پر

ہفتہ 3 اگست 2024
author image

ڈاکٹر نعمان انصاری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اپنی شہادت سے دو دن قبل حماس کے سیاسی امور کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے 3 اگست کو  پوری دنیا میں ‘اسیران فلسطین’ کا دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کی شہادت نے یہ دن منانے کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق نے 31 جولائی 2024 کو اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی حالت زار پر ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ مضمون اسی رپورٹ کے حوالے سے ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔


اسرائیلی خون باوفا نہیں، وہ آپ کو بے رحمی سے مار سکتے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ قربت اور محبت گناہ ہے اور میں یہ گناہ کبھی نہیں کرنا چاہوں گی اور میں یہ بھی نہیں چاہوں گی کہ کوئی اور انسان یہ گناہ کرے۔ اسرائیل کو بے نام بچوں کو قتل کرنے سے محبت ہے۔ اسرائیل نے انسانیت کو قتل کردیا ہے۔ (بھارتی مصنفہ، ارون دھتی رائے)

اقوام متحدہ کے مطابق نومبر 2023 کے آغاز سے ہزاروں فلسطینیوں کو اسرائیلی ڈیفینس فورسز نے حراست میں لینا شروع کیا تھا۔ ادارے کے مطابق اب تک کے اعداد وشمار بتا پانا مشکل ہے کہ کتنے ہزار فلسطینی گرفتار کیے گئے، ان میں سے زیادہ تر وہ تھے جو اسکولوں، ہسپتالوں اور رہائشی عمارتوں کے ملبے میں پناہ لیے ہوئے تھے یا پھر فلسطینیوں کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب ان کو زبردستی شمالی غزہ سے جنوبی غزہ کی طرف دھکیلا جارہا تھا۔

حد تو یہ ہے کے اقوام متحدہ کے ادارے ‘اونروا’ کے 40 اہلکاروں کو بھی گرفتار کرلیا گیا (اسرائیلی حکومت 7 اکتوبر کے بعد سے اونروا پر یہ الزام لگاتی آرہی ہے کے اونروا کے اہلکار حماس کی مدد کرتے ہیں لیکن اسرائیل اس الزام کے آج تک کوئی ثبوت پیش نییں کرسکا)۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکس کو بھی ہسپتالوں میں چھاپوں کے دوران آئی ڈی ایف نے گرفتار کیا۔ گرفتاریوں کے بعد فلسطینیوں کو غزہ سے اسرائیلی جیلوں میں منتقل کردیا جاتا۔ حد تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں کے دوروں کے موقع پر خواتین اور بچوں نے بتایا کہ ان کو ان کے باپ، بھائی، شوہروں اور بیٹوں کے بارے میں کوئی علم نہیں، وہ آئی ڈی ایف کی قید میں ہیں، زندہ ہیں یا شہید کر دیے گئے ہیں۔

27 مئی 2024 کو اسرائیلی اتھارٹی نے ایک بیان جاری کیا کہ ریاست اسرائیل نے 4000 سے زیادہ عارضی قید کے تحریری احکامات ایک اسرائیلی قانون ‘Incarceration of unlawful combatant law’ کے تحت جاری کیے ہیں۔ ان میں سے 1500 فلسطینیوں کو واپس غزہ بھیج دیا گیا اور 2000 مستقل قید کے احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر قیدیوں کو کسی نے نہیں بتایا کے ان کو کس وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ان کو وکیل تک رسائی دی گئی۔ ایسے ہی ایک گرفتاری 22 نومبر 2023 کو عمل میں لائی گئ جس میں الشفاء ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلامہ حراست میں لیے گئے۔ گرفتاری کے وقت ڈاکٹر سلامہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے ساتھ غزہ کے ہسپتالوں کے مریضوں کو غزہ سے نکال رہے تھے۔ ڈاکٹر سلامہ کو جولائی میں رہا کردیا گیا تھا۔ حراست کے دوران ان کو 3 دفعہ کورٹ میں پیش کیا گیا لیکں نہ کبھی اپنے وکیل سے ملنے دیا گیا اور نہ ہی ان کو کبھی ان کا جرم بتایا گیا۔ 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل میں ہی بہت سارے فلسطینی مزدوروں اور مریضوں کے گروہوں کو اسرائیل میں ہی گرفتار کرلیا گیا حالانکہ وہ سب قانونی طریقے سے اسرائیل میں داخل ہوئے تھے۔

جون 2024 تک اسرائیلی پریزن سروس نے 9440 فلسطینی قیدیوں کو ‘Security Detainees’ قرار دیا۔ 3377 انتظامی قیدی تھے، 2561 قیدیوں کو جرم بتائے بنا ریمانڈ پر رکھا گیا، 2087 قیدیوں کو بغیر قانونی عمل پورے کیے سزائیں سنا دی گئیں اور 1415 قیدیوں کو ‘غیر قانونی جنگجو’ قرار دے دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب بغیر کسی قانونی کور اور ضابطے کے کیا گیا۔

ذیل میں تشدد کے ان طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اسرائیلی جیلوں میں فلسطینیوں پر کئے جارہے ہیں۔ شاید پڑھنے والوں کو ابو غریب اور گوانتانامو بے کی بھولی بسری کہانیاں یاد آجائیں۔

جنسی اور جسمانی تشدد

ایسا نہیں ہے کہ اسرائیلی جیلوں اور عقوبت خانوں میں تشدد اور غیر انسانی سلوک 7 اکتوبر کے بعد شروع ہوا، یہ کریہہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے جس پر فلسطینی اور اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں کی لاتعداد رپورٹیں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ لیکن تشدد کے نت نئے طریقے اسرائیل نے 7 اکتوبر کے بعد ایجاد کیے بلکل ویسے ہی جیسے امریکہ نے گوانتاناموبے میں واٹر بورڈنگ شروع کی تھی۔ کم کھانا دینا یا کئی کئی دن بالکل بھوکا رکھنا، گھر والوں سے ملنے نہ دینا، روز کی بنیادوں پر جیل کی تلاشی لینا، ذاتی استعمال کی اشیاء قبضے میں لے لینا، حتیٰ کہ خواتین قیدیوں کی سینیٹری پیڈز بھی اٹھا کر لے جانا۔ اسرائیل کے قومی دفاع کے وزیر نے ایک جیل کے دورے پر کہا تھا کہ ‘دہشت گردوں کو جان بوجھ کر سخت حالات میں رکھا جارہا ہے’۔ جبکہ اب تک بیشتر قیدیوں کے مقدمات عدالتوں میں لگے ہی نہیں، وہ کیسے دیشت گرد ثابت ہوگئے۔

غذا کی کمی اور صحت کی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے قیدیوں کی صحت بے انتہا خراب ہوچکی ہے اور عینی شاہدین کے مطابق کچھ قیدیوں کی موت بھی یوئی ہے جس کا ذکر اس مضمون میں آگے چل کر کیا جائے گا۔ مرد قیدیوں کے وزن 50 کلو تک کم ہوچکےہیں۔ ایک 21 سالہ نوجوان محمد البصر کی موت کے بعد جب اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو پتا چلا کہ ان کی موت مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے ہوئی۔

اسرائیلی فوج کے زیر انتظام جیلوں کے حالات اور بھی خراب ہیں جہاں سخت موسمی حالات میں بھی قیدیوں کو کھلی جگہوں پر رکھا جاتا ہے۔ ان جیلوں میں جنسی اور جسمانی تشدد عام بات ہے یہاں تک کہ قیدیوں پر شکاری کتے چھوڑے جاتے ہیں۔ (معلوم نہیں یہ عمل امریکہ نے اسرائیل سے سیکھا یا اسرائیل نے امریکہ سے)

ایک قیدی نے یو این کے اہلکار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ‘میرے ہاتھ باندھے رکھے گئے اور 55 دنوں تک میری آنکھوں پر پٹی باندھی رکھی گئی۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس حال میں کھانا پینا، سونا اور حرکت کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہوگا۔ جو درد میں نے سہا وہ ناقابل برداشت تھا اور ان 55 دنوں میں مجھے ایک دفعہ بھی نہانے کی اجازت نہیں دی گئی’۔

اپریل 2024 میں ایک اسرائیلی ڈاکٹر نے بتایا کہ غزہ سے تعلق رکھنے والے 2 فلسطینی قیدیوں کی ٹانگیں کاٹنی پڑگئیں کیونکہ انہیں لمبے عرصے تک بھاری زنجیروں سے سختی سے باندھ کر رکھا گیا تھا۔

اسرائیلی جیلوں میں جنسی تشدد عام سی بات ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں جنسی تشدد کے حوالے سے بہت سی شہادتیں اور گواہیاں موجود ہیں۔ راقم یہاں صرف ایک واقعہ کا ذکر کررہا ہے۔

“اکتوبر 2023 میں گرفتار ہونے والے ایک فلسطینی شخص نے بتایا کہ اسرائیلی جیل کے گارڈز نے اس کو دیگر قیدیوں کے ساتھ کچن میں گھسیٹا جب کہ ان سب قیدیوں کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ پھر زبردستی ان سب کو برہنہ کیا گیا اور تمام قیدیوں کو ایک دوسرے کے پیچھے چپکا کر کھڑا کردیا۔ اس دوران ایک گارڈ نے سبزی کا ایک ٹکڑا اس کے مقعد میں زور سے گھسایا جب کہ وہاں موجود دوسرے گارڈ اس واقعے کی ویڈیو بناتے رہے۔ مجھے محسوس ہوا کے میرے اندر کچھ ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا ہے، پھر وہ ہم سب کو واپس سیل میں لے گئے۔ ہم سب کی آنکھوں سے آنسو گررہے تھے جن کی آواز نییں تھی۔ کوئی بھی کسی سے بات نہیں کررہا تھا اور کوئی بھی آنکھیں نہیں ملا پارہا تھا۔”

حراست میں اموات

اسرائیلی حکومت اب تک فلسطینی قیدیوں کے حوالے سے کچھ بھی بتانے سے گریز کررہی ہے۔ اس لیے یہ بتایا ناممکن ہے کہ اب تک کتنے فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں مرچکے ییں۔ لیکن اسرائیلی فوج نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کبھ قیدی اسرائیلی جیلوں میں اپنی کسی پرانی بیماری کی وجہ سے یا پھر لڑائی کے دوران شدید چوٹیں لگنے کی وجہ سےموت کا شکار ہوئے ہیں۔ اسرائیل پریزن سروس اور فلسطینی قیدیوں کی تنظیم کے مطابق 7 اکتوبر سے 15 اکتوبر کے درمیان 17 فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں فوت ہوئے ہیں۔ فلسطینی قیدیوں کی تنظیموں کے مطابق اسرائیلی حکومت 15 قیدیوں کی لاشوں کو ان کے خاندانوں کے حوالے کرنے سے گریزاں ہے۔ قیدیوں کی لاشوں کو نہ دینا خاندان والوں کے لیے دہرا عذاب ہے اور یہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایک جرم بھی ہے۔

یہاں پر یو این کے ریکارڈ کردہ ایک کیس کا حوالہ دینا ضروری ہے۔

50 سالہ ڈاکٹر عطیہ البرش الشفاء ہسپتال میں آرتھوپیڈک کے شعبے کے سربراہ تھے جو کے 19 اپریل 2024 کو اسرائیلی جیل میں دم توڑ گئے۔ اسرائیلی فوج نے ان کو 18 دسمبر 2023 کو العودہ ہسپتال سے دوسرے ڈاکٹروں اور اسٹاف کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ ڈاکٹر البرش کے ساتھ ہی قید ایک عینی شاہد نے اقوام متحدہ کے نمائندوں کو بتایا کہ جب وہ یہاں آئے تھے تو ان کی صحت بالکل ٹھیک تھی اور وہ اپنے روز مرہ کے کام بھی خود کرتے تھے۔ عینی شاہد کے مطابق اس کو شک ہے کہ ڈاکٹر البرش کی موت شدید جسمانی تشدد اور غیر انسانی سلوک کی وجہ سے ہوئی۔

اسی طرح ایک تنظیم ‘فزیشن فار ہیومن رائٹز اسرائیل’ کے مطابق ان کی تنظیم کے ڈاکٹروں نے 5 فلسطینی قیدیوں کے پوسٹ مارٹم کیے جو کہ اسرائیلی جیلوں میں 20 مارچ 2024 کو وفات پا گئے تھے۔ تنظیم کے مطابق ان 5 میں سے 2 قیدیوں کے جسموں پر نہ صرف تشدد کے واضح نشانات تھے بلکہ ان کی پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ تیسرے فلسطینی قیدی کی موت جیل میں صحت کی سہولیات فراہم نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی۔

ایک اور واقعے میں 38 سالہ طاہر ابو اسیب کٹزوٹ جیل میں 18 نومبر کو فوت ہوئے۔ ایک سابق قیدی نے میڈیا انٹرویو کے دوران بتایا کہ کٹزوٹ جیل میں ابو طاہر پر سخت تشدد کیا گیا اور کوئی طبی سہولت بھی فراہم نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ابو طاہر کی موت واقع ہوئی۔ اس بات کی تصدیق 4 سابق فلسطینی قیدیوں سے بھی کی گئی اور ان سب کا بھی یہی کہنا تھا کہ کٹزوٹ جیل میں ہمیشہ سے شدید تشدد کیا جاتا ہے۔ اکثر قیدی مار کھاتے کھاتے بے ہوش ہوجاتے ہیں یا پھر ان کو جان لیوا چوٹیں لگ جاتی ہیں۔ ابو طاہر کی موت کے بعد میڈیا کو بتایا گیا کہ جیل کے 19 گارڈز کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں لیکن ان تحقیقات کے حوالے سے کوئی اور معلومات اقوام متحدہ کے پاس تاحال نہیں ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق کی اس رپورٹ کے آخر میں اسرائیلی حکومت اور جیل حکام کو بہت سی سفارشات دی گئی ہیں۔ ان سب کا ذکر یہاں نہیں کیا جا سکتا لیکن ان سطور کو لکھتے یوئے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا جن کو یہ سفارشات دی جارہی ہیں وہ خود کو ‘مہذب اقوام’ نہیں کہلواتی؟ کیا تہذیب کے احاطے میں دشمن اقوام نہیں آتی؟ اقوام عالم کا ضمیر (جو پتہ نہیں ہوتا بھی ہے یا نہیں) ابو غریب، بگرام جیل اور گوانتانامو بے پر کیوں نہیں جاگیا اور کیا کمزور اقوام اس ظلم پر خاموش رہ کر بس اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں؟ بقول شاعر،

میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ میرے بیان میں کیا

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp