مخصوص نشستوں سے متعلق حکم ماورائے آئین، ادارے اس پر عملدرآمد کے پابند نہیں، 2 ججز کا اختلافی نوٹ

ہفتہ 3 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کو مخصوص نشستیں آلاٹ کرنے کے معاملہ پر سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں اپنا تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کر دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا۔

سپریم کورٹ کے 2 سینیئر ترین ججز جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے ہفتہ کے روز سپریم کور ٹ میں مخصوص نشستوں کی آلاٹمنٹ سے متعلق سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کی طرف سے دائر مقدمے پر سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں اپنا تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کیا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ہمارے خیال میں نہ تو آرٹیکل 62(2)، 63 اور 63-اے کو معطل کیا گیا ہے اور نہ ہی کیا جا سکتا ہے، لہٰذا مرد و خواتین اراکین قومی و صوبائی اسمبلی حلف نامے کی آئینی شقوں کے برعکس کوئی بھی حلف نامہ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلیوں میں پہلے سے جمع کرائے گئے اپنے حلف نامے کے برعکس نیا حلف نامہ داخل کرتے ہیں اور کسی دوسری پارٹی میں بھی شامل ہو جاتے ہیں، تو ایسے اراکین کے اسمبلیوں میں بیٹھنے کی صورت میں تعزیری نتائج برآمد ہوں گے۔

ایسی صورت کے پیدا ہونے کے نتیجے میں عدالت کا کوئی بھی حکم جو آئینی دفعات سے مطابقت نہیں رکھتا ریاست کا کوئی بھی دوسرا ادارہ اس پر عملدرآمد کا پابند نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ یہ معاملہ 08.02.2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین، 1973 (‘آئین’) کے آرٹیکل 51 اور 106 کے مطابق قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلموں کے لیے مخصوص نشستوں سے متعلق ہے۔

انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) 1 نے 21 اپریل 2024 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو چار خطوط لکھے، جن میں عام انتخابات کے بعد آزاد امیدواروں کی بات کی گئی تھی۔

c.a._333_2024_detailed_03082024 by Iqbal Anjum on Scribd

آزاد امیدواروں کو الیکشن کمیشن قومی اسمبلی اور تینوں صوبائی اسمبلیوں میں طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد تسلیم کیا، 39 یا 41 اراکین اسمبلی جس کا مختصر اکثریتی فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے یہ معاملہ کبھی متنازع ہی نہیں تھا، کسی عدالتی کارروائی میں یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کیا،تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائیکورٹ میں فریق تھی، سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔

اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ فل کورٹ کے 13 ججوں نے سنی اتحاد کونسل کو کوئی ریلیف نہیں دیا اور سنی اتحاد کونسل کا دعویٰ کثرت رائے سے مسترد ہوا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور جماعت 8 فروری کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، حتیٰ کہ اس جماعت کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔ اسی وجہ سے سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن میں اپنے مخصوص نشستوں کے امیدواران کی فہرستیں جمع نہیں کروائیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے سے طاقتور اور جابر کے ارادوں کو مات ہوئی، سلمان اکرم راجہ

اختلافی نوٹ کے مطابق 13رکنی فل کورٹ کی8 سماعتوں میں سب سے زیادہ وقت کا استعمال ججز کے سوالات پر ہوا، دوران سماعت کچھ ججز نے یہ سوال بھی پوچھا کہ کیا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جا سکتی ہیں؟ کوئی بھی وکیل مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر متفق نہ ہوا،کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بھی دلائل میں واضح کہا کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے سے اتفاق نہیں کرتا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسی جماعت جس نے عام انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا، اس میں جتنے بھی آزاد امیدواران شامل ہو جائیں، وہ ایک پارلیمانی جماعت نہیں بن سکتی اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مؤقف درست ہے۔

پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست درست بنیادوں پر مسترد کی اور اس کے فیصلے میں کوئی خامی نہیں تھی۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ ایس آئی سی میں ایک سیاسی جماعت کے امیدواروں نے شمولیت اختیار کی، اس کے مطابق ان کے رضامندی فارم، حلف نامے ایس آئی سی نے داخل کیے اور خطوط میں درج رسید ڈائری نمبروں کے ذریعہ کمیشن میں وصول کیے گئے۔

مزید پڑھیں: مخصوص نشستیں: ہمیں ہمارا حق مل گیا، پی ٹی آئی کا مؤقف

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کے اکثریتی فیصلے کو سنائے جانے کو 15 دن مکمل ہونے کے باوجود اکثریت کا تفصیلی فیصلہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا ہے۔

عدالت کے حکم کے خلاف دائر نظرثانی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ تاخیر بے نتیجہ ہوسکتی ہے۔ لہٰذا مختصر ترتیب کی بنیاد پر ہم اپنے نتائج کو ریکارڈ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جو 2 حصوں میں ہیں۔ پہلے حصے میں بتایا گیا ہے کہ ہم اکثریت کے فیصلے سے متفق کیوں نہیں ہیں اور دوسرے حصے میں کیس کے میرٹ کی بنیاد پر اپیلوں پر ہمارا فیصلہ بیان کیا گیا ہے۔

تسلیم شدہ مؤقف یہ ہے کہ اس عدالت کے سامنے فوری مقدمے کا موضوع پشاور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف آئین کے آرٹیکل 185 (3) کے تحت دائر کی گئی درخواستیں تھیں جس میں اپیل گزاروں کی جانب سے دائر کی گئی رٹ درخواستیں خارج کردی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:مخصوص نشستیں ملنے کے بعد حکومت بنانی ہے یا نہیں، فیصلہ بعد میں کریں گے، بیرسٹر گوہر

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تفصیلی فیصلے میں تاخیر کے باعث ہم مختصر حکمنامے پر ہی اپنی فائنڈنگ دے رہے ہیں، پی ٹی آئی اس کیس میں فریق نہیں تھی اس لیے پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہو گا۔ اس کے باوجود اگر پی ٹی آئی کو ریلیف دینا ہے تو پھر آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ 80 اراکین کی قسمت کا فیصلہ سپریم کورٹ نے انہیں سنے بغیر کر دیا، ان اراکین کا سنی اتحاد کونسل میں جانا متنازع تھا ہی نہیں، ناصرف سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں خارج کی گئیں بلکہ وہ آزاد اراکین جنہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی انہیں سنے بغیر سنی اتحاد کونسل سے چھینا گیا، سپریم کورٹ جب کوئی اپیل سنی ہے تو اس کا اختیار سماعت محدود ہوتا ہے جسے اکثریتی فیصلے میں نظر انداز کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp