تحریک پاکستان کی طرح پاکستان کے قومی ترانے کی تاریخ میں بھی بہت سے نشیب و فراز آتے ہیں۔ قومی ترانے کی تاریخ پر ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے غیر معمولی کام کیا ہے، ان کی کتاب ’پاکستان کا قومی ترانہ: کیا ہے حقیقت، کیا ہے فسانہ‘ کے مطابق اس کام کی داغ بیل 14 جنوری 1948 میں پڑی، جب قائداعظم محمد علی جناح ابھی حیات تھے۔ ریڈیو پاکستان کے کنٹرولر براڈ کاسٹنگ زیڈ اے بخاری نے ڈپٹی سیکریٹری وزارت داخلہ کو ایک نوٹ ارسال کیا جس میں حکومت کو توجہ دلائی گئی کہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان کا قومی ترانہ بھی ہونا چاہیے۔ اس نوٹ کے ساتھ انہوں نے پیانو پر تیار کی ہوئی ایک دھن بھی ارسال کی جسے ایک برطانوی موسیقار جوزف ویلش نے تیار کیا تھا۔ یہ دھن ریڈیو پاکستان لاہور میں ریکارڈ کی گئی تھی۔ اسی نوٹ میں انہوں نے یہ بھی تجویز کیاکہ پاکستان میں چوںکہ ایک سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ کو بطور قومی ترانہ اختیار کرلیا جائے۔
کیا اس سے قبل حکومت پاکستان کے کسی ادارے، خود وزیراعظم یا کابینہ کی طرف سے قومی ترانے کی تیاری کے ضمن میں کوئی ہدایت ریکارڈ پر ملتی ہے؟ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ اس کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ زیادہ امکان یہی ہے کہ نئے ملک کی نئی حکومت کا خیال اس طرف نہیں گیا ہوگا۔
زیڈ اے بخاری نے سورۃ فاتحہ کو بطور قومی ترانہ اختیار کرنے کی تجویز کیوں پیش کی؟ پاکستان کے کثیراللسانی ملک ہونے کے علاوہ انہوں نے اس کی چند دیگر وجوہات بھی بیان کی ہیں۔ انہوں نے اس 8 نکاتی فہرست میں لکھا کہ اس سے پاکستان کے عوام اور دانشور دونوں مطمئن ہوں گے۔ دنیا کی بہت سی زبانوں میں چوںکہ اس سورۃ کے تراجم کیے جاچکے ہیں، اس لیے یہ معروف ہے، قوم اس کا دل سے احترام کرتی ہے۔ گاندھی جی اکثر اس کی تلاوت کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ سورۃ ہر ایک لیے قابل قبول ہے۔ ان کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ اسے اگر روایتی طریقے سے پڑھا جائے تو اس میں بہت موسیقیت ہے، نیز یہ کہ اسے بطور قومی ترانہ اختیار کیا جائے تو اس کے لیے آلات موسیقی کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس نوٹ کے تقریباً 3 ہفتے کے بعد 9 فروری کو ایک اجلاس قومی ترانے کے سلسلے میں ہوا جس میں برطانوی موسیقار کی دھن کو مسترد کردیا گیا۔ ریکارڈ میں موجود اجلاس کے منٹس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ والی تجویز زیر غور نہیں آئی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے نامور شعرا کو ترانہ لکھنے کی دعوت دی جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے جو لکھے گئے ترانوں کا جائزہ لے اور اس کی موسیقی کے بارے میں تجاویز پیش کرے۔
اسی ماہ 27 فروری کو مرکزی کابینہ میں یہ معاملہ زیر بحث آیا جس میں وفاقی وزیر مواصلات سردار عبد الرب نشتر کی قیادت میں 9 رکنی کمیٹی قائم کردی گئی جس میں وزیر خوراک پیرزادہ عبد الستار کے علاوہ دستور ساز اسمبلی کے 2 ارکان، 2 شعرا اور چند بیوروکریٹس شامل تھے۔ دستور ساز اسمبلی کے ارکان میں مغربی پاکستان سے ایک مسلمان رکن چوہدری نذیر احمد خان اور مشرقی پاکستان سے ہندو رکن پروفیسر راج کمار چکرورتی شامل تھے۔ شعرا میں مشرقی پاکستان سے کوی جسیم الدین اور مغربی پاکستان سے حفیظ جالندھری شامل تھے۔ بیوروکریسی سے دیگر کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل سید ذوالفقار علی بخاری شامل تھے۔
کمیٹی کے ایک رکن اے ڈی اظہر نے لکھا ہے کہ کمیٹی نے قومی ترانے کے لیے 5 رہنما اصول وضع کیے، جن میں موضوع، موسیقی، وزن و بحر، زبان اور شوکت الفاظ اور بین الاقوامیت جیسے اصول شامل تھے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ کمیٹی کا اجلاس ہوا تو اس کے ارکان کے ذہن میں ترانے سے متعلق کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ اے ڈی اظہر کے مطابق انہوں نے تجویز پیش کی کہ کیوں نہ کلام اقبال کا کوئی حصہ منتخب کرلیا جائے۔ اس تجویز پر ایک اور کمیٹی قائم کردی گئی جس نے کلام اقبال سے 7 چیزیں منتخب کرکے کمیٹی کے اگلے اجلاس میں پیش کیں۔ ہندو رکن نے اعتراض کیاکہ کلام اقبال کا بنیادی تصور ہی توحید، اخوت، مومن اور ایمان وغیرہ پر مشتمل ہے، اس لیے یہ ان کے لیے قابل قبول نہیں۔ یوں قومی ترانے کے لیے کلام اقبال سے کچھ منتخب کرنے کا خیال ترک کردیا گیا۔
3 مئی 1949 کی ایک خبر سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے قومی ترانے کے انتخاب کے لیے بین الاقوامی مقابلہ منعقد کرانے کا اعلان کیا اور اس مقصد کے لیے 500 پونڈ انعام بھی مقرر کردیا۔ حفیظ جالندھری نے لکھا ہے کہ اس اعلان کے بعد ملک کے گوشے گوشے سے قومی ترانے کے لیے شاعری اور دھنیں موصول ہونے لگیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں بھیجے گئے ترانوں کی تعداد 200 اور دھنوں کی تعداد 63 بتائی ہے۔ ان ترانوں اور دھنوں کا جائزہ لینے کے لیے دو ذیلی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔
یہ کمیٹیاں 5 جولائی 1949 کو قائم کی گئی تھیں، ان کے ذمے ترانے اور دھن کے انتخاب کی مشکل ذمے داری تھی ہی ایک اور دباؤ بھی تھا۔ دباؤ یہ تھا کہ چند ماہ کے بعد شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کا دورہ پاکستان متوقع تھا، حکومت چاہتی تھی کہ اس موقع تک قومی ترانے کی تیاری کا کام مکمل ہو جانا چاہیے۔ ممتاز موسیقار احمد غلام علی چھاگلہ قومی ترانے کی ایک ذیلی کمیٹی کے رکن تھے۔ انہوں نے کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں مقابلے میں حصہ لینے والے موسیقاروں کی منتخب دھنوں کے علاوہ اپنی دھن بھی پیش کی۔ کمیٹی نے 21 اپریل 1949 کو چھاگلہ کی دھن کو منظور کرلیا۔ یہ دھن ریڈیو پاکستان کے ایک فنکار بہرام سہراب رستم جی نے اپنے پیانو پر بجا کر ریکارڈ کرائی تھی جس میں 21 آلات موسیقی اور 38 ساز استعمال ہوئے تھے۔ اس دھن کا دورانیہ 89 سیکنڈ تھا۔ شہنشاہ ایران کے استقبال کے موقع پر یہ دھن پیش کرنے کی ذمے داری پاکستان بحریہ کے سپرد کی گئی جس نے فنکار عبدالغفور کی قیادت میں یکم جنوری 1950 کو کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر شہنشاہ ایران کی آمد کے موقع پر اسے بجانے کا اعزاز حاصل کیا۔
ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے لکھا ہے کہ حفیظ جالندھری نے ادبی پرچے ’افکار‘ میں ’قومی ترانے کا افسانہ‘ کے عنوان سے ترانے کے انتخاب کی کہانی بیان کی ہے۔ ان کے مطابق وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے انہیں خود ترانہ لکھنے کی دعوت دی تھی۔ ڈاکٹر جعفری نے اس دعوے کی تصدیق کے لیے اس زمانے کے اخبارات کی ورق گردانی کی جس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے نہ صرف ترانہ لکھا بلکہ اس کی دھن بھی تیار کی، اس ترانے کے بول تھے:
میرے آباد وطن آزاد پاکستان
زندہ باد پاکستان
زندہ باد پاکستان
اخبار کے مطابق اس دھن کا دورانیہ اڑھائی سے تین منٹ کے درمیان تھا۔ کمیٹی نے یہ ترانہ مسترد کردیا۔ اور احمد غلام علی چھاگلہ کی دھن منظور کرلی تو پاکستان کے شاعروں سے ایک بار پھر ترانے طلب کیے گئے۔ اس مقصد کے لیے ریڈیو پاکستان سے ہر شب یہ دھن بھی نشر کی جانے لگی۔ اس مہم کے نتیجے میں کمیٹی کو 723 ترانے موصول ہوئے۔ ان میں سے 3 ترانے پسند (شارٹ لسٹ) کیے گئے۔ ان میں ایک ترانہ حکیم احمد شجاع کا تھا جس کے بول تھے:
زندہ باد پاکستان
حب وطن ایمان
دوسرا ترانہ زیڈ اے بخاری کا تحریر کردہ تھا، اس کے بول تھے:
انسانیت کا نشان
علم و عمل ایمان
حفیظ جالندھری کا ترانہ وہی تھا جسے بعد میں قومی ترانے کی حیثیت سے منظوری دی گئی یعنی
پاک سر زمین شاد باد
کشور حسین شاد باد
حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا یہ ترانہ آسانی کے ساتھ منظور نہیں ہوا، اس پر بھی کئی اعتراض ہوئے۔ ڈاکٹر جعفری نے نیشنل ڈاکیومینٹیشن ونگ سے حفیظ جالندھری اور وزارت اطلاعات و نشریات کے جوائنٹ سیکریٹری سید ہاشم رضا کے درمیان خط و کتابت کا کھوج لگایا ہے۔ حفیظ جالندھری کے خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں آگاہ کیا گیا تھا حکومت نے دو شاعروں کے ترانوں کو ایک ترانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ زیڈ اے بخاری کے ترانے کے پہلے بند اور حفیظ جالندھری کے ترانے کے پہلے بند کو چھوڑ کر باقی سارے بندوں کو ملا کر ایک ترانے کی شکل دی جارہی ہے۔ حفیظ جالندھری نے اس پر احتجاج کیا۔ انہوں نے اپنے طویل خط میں دونوں ترانوں کی فنی حیثیت پر بحث کی اور بتایا کہ بخاری صاحب کا ترانہ نہ عروض پر پورا اترتا ہے اور نہ چھاگلہ مرحوم کی دھن پر۔
ترانہ کمیٹی نے حفیظ جالندھری کے ترانے کے دو مصرعوں:
حال جان استقبال
اور پرچم ستارہ و ہلال پر اعتراضات سے انہیں آگاہ کیا۔ ان کو بتایا گیا کہ جان استقبال کے معنی واضح نہیں ہیں جبکہ پرچم کا لفظ علم یا جھنڈے کے معنی نہیں دیتا۔ حفیظ جالندھری نے اپنے جوابی خط میں ان تمام اعتراضات کا ٹھوس جواب دے کر انہیں رد کردیا۔
حفیظ جالندھری کا یہ خط فیصلہ کن ثابت ہوا اور مرکزی کابینہ نے 4 اگست 1954 کو ان کا پورا ترانہ منظور کر لیا۔ یہ ترانہ 13 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے نشر کیا گیا۔
قومی ترانے کے انتخاب کی کہانی تقریباً 5 برس تک پھیلی ہوئی ہے لیکن یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ سال 2004 میں مقبوضہ کشمیر کے ایک صحافی لو پوری نے ایک تنازع کھڑا کیا۔ انہوں نے آنجہانی جگن ناتھ آزاد کا ایک انٹرویو ان کی موت کے بعد شائع کیا۔ اس انٹرویو کے ذریعے دعویٰ کیا گیا کہ جگن ناتھ آزاد پاکستان کے پہلے قومی ترانے کے خالق ہیں۔ بعض پاکستانی صحافیوں نے بھی بلا سوچے سمجھے اس دعوے کو آگے بڑھانا شروع کردیا۔ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ اس دعوے کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ جگن ناتھ آزاد کو ترانہ لکھنے کی دعوت خود قائداعظم نے دی تھی۔ ڈاکٹر جعفری لکھتے ہیں کہ یہ دعویٰ اس لیے بھی غلط ہے کہ مرکزی کابینہ نے قومی ترانے پر کام کرنے کی منظوری دی۔ اگر جگن ناتھ آزاد کا دعویٰ درست ہوتا تو قائداعظم اسی وقت کابینہ کو اس کام سے روک دیتے۔
قومی ترانے پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ یہ اردو میں کیوں نہیں، فارسی میں کیوں ہے؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ دیا جاتا ہے کہ ترانے میں استعمال کیے گئے تمام الفاظ اردو دانوں کے جانے پہچانے اور اس زبان میں بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ اعتراض وزن نہیں رکھتا لیکن اس کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس کی وجہ سے زیڈ اے بخاری نے سورۃ فاتحہ کو قومی ترانے کی حیثیت سے منتخب کرنے کی تجویز پیش کی۔ یہ تجویز مسترد ضرور ہوئی لیکن جو ترانہ منتخب کیا گیا، شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ بھی اسی معیار پر پورا اترتا تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی ملک میں اردو بنگلہ لسانی جھگڑا پیدا ہوچکا تھا ۔ ایسی صورت میں کسی ایک زبان میں بھی ترانہ لکھا جاتا تو تنازع یقینی تھا۔ قومی ترانے پر تحقیق کرنے والوں نے قومی ترانے کی زبان یعنی فارسی اختیار کرنے کے جواز کے بارے میں تو کچھ نہیں لکھا لیکن ایسی تمام تحریروں میں یہ بھی کہیں نہیں ملتا کہ حفیظ جالندھری کا ترانہ منتخب ہو جانے کے بعد ترانے کی زبان کے بارے میں مشرقی پاکستان سے کوئی اعتراض سامنے آیا ہو۔ یہ کمال کیسے ہوا؟ اس کی یقینی وجہ ترانے کی زبان یعنی فارسی زبان ہی ہو سکتی ہے کیوںکہ برصغیر کے مسلمانوں کی لٹریری اور نظریاتی زبان فارسی ہی تھی جس کے نہایت گہرے اثرات قیام پاکستان کے بعد بھی دکھائی دیتے ہیں۔
جدید اردو شاعری کے تعلق سے شہرت حاصل کرنے والے ممتاز شاعر ڈاکٹر سعادت سعید نے پاکستان کے لیے لکھے گئے مختلف ترانوں اور دنیا کے ملکوں کے ترانوں کا تنقیدی مطالعہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کے کئی ملکوں کے قومی ترانوں کی بنیاد نظریاتی ہے۔ وہ اس سلسلے میں خاص طور پر بھارت، ترکیہ اور ایران کے قومی ترانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب ترانے متعلقہ ملک کے مخصوص حالات اور نظریاتی ساخت کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے قومی ترانے کا امتیاز یہ ہے کہ ہر نظریاتی معیار پر پورا اترنے کے باوجود اس میں اعتدال اور آفاقیت کا پہلو نمایاں ہے۔