وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کا انتظامی کنٹرول وزارت موسمیاتی تغیرات و ماحولیات سے لے کر وزارت داخلہ کو ٹرانسفر کرنے کی منظوری دی جا چکی ہے۔ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کو تمام اثاثوں اور لوازمات کے ساتھ ٹرانسفر کیا گیا ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ تمام رسمی کارروائیوں کو ایک مہینے کے اندر مکمل کیا جائے۔ مگر کیا اس تبدیلی کے بعد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی ذمہ داریوں کو وزرات داخلہ بخوبی نبھا پائے گی؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ماہر ماحولیات ڈاکٹر محمد توحید کہتے ہیں کہ اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کو وزارت داخلہ کو منتقل کرنے کے حالیہ نوٹیفکیشن نے ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں پر اس تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے اہم بحث چھیڑ دی ہے۔ اس وقت میں جب پوری دنیا موسمیاتی تغیرات سے نمٹنے کے لیے جان لگا رہی ہے، پاکستان میں اس طرح کی تبدیلیاں درست نہیں۔
مزید پڑھیں:اسلام آباد: مارگلہ ہلز سے بموں سے بھرا بیگ برآمد
انہوں مزید کہا کہ اسلام آباد مارگلہ ہلز نیشنل پارک (MHNP) جب سی ڈی اے کے زیر انتظام تھا، اس وقت ناقص کارکردگی کی وجہ سے بڑی ماحولیاتی تباہیاں ہوئیں، جس کے نتیجے میں چیئر فیزنٹ اور گرے گورل جیسی انواع کا ناپید ہونا بھی شامل ہے۔
انہوں نے سی ڈی اے کی کارکردگی کے حوالے سے مزید کہا کہ سی ڈی اے کے تحت، قدرتی ماحول کو نقصان پہنچانے والی تجارتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا تھا، جیسے ان جگہوں پر ریسٹورنٹس اور ڈھابے بن گئے۔ جنہوں نے نہ صرف وہاں کی وائلڈ لائف کو شدید متاثر کیا بلکہ وہاں جنگلات کو بھی نقصان پہنچایا۔
یہی وجہ ہے کہ اگر سی ڈی اے کی کارکردگی کو دیکھا جاتا تو بہت سے خدشات جنم لیتے ہیں۔ جبکہ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے تمام تر ذمہ داریوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق نبھایا۔ لیکن اب اس کو وزارت داخلہ کو منتقل کر دینا وائلڈ بورڈ کی کوششوں اور ترقی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:مارگلہ ہلز کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے لیے بڑی شجرکاری مہم کا آغاز
یہ فیصلہ اسلام آباد کے قدرتی علاقوں کے پائیدار انتظام اور تحفظ کے لیے حالیہ برسوں میں ہونے والی پیش رفت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ قدرتی علاقوں کے مؤثر تحفظ کے لیے ایک خصوصی اور با اختیار ادارے کی ضرورت ہے جو ترقی کے دباؤ سے آزادانہ طور پر کام کر سکے۔
سی ڈی اے کے تحت آئی ڈبلیو ایم بی کی وزارت داخلہ کو منتقلی اسلام آباد کے ماحول اور آب و ہوا کے لیے ایک جارحانہ قدم ہے، کیونکہ اس سے تحفظ پر ترقی کو ترجیح دینے کا خطرہ ہے، جو ممکنہ طور پر مزید ماحولیاتی انحطاط کا باعث بنتا ہے۔
دوسری جانب وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی ڈائریکٹر رینا سعید کا کہنا تھا کہ وہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کو منتقل کرنے کے حوالے سے فی الحال کچھ نہیں کہنا چاہتیں۔ کیونکہ وہ ابھی بھی وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی ڈائریکٹر ہیں۔
مزید پڑھیں:مارگلہ ہلز خاتون زیادتی کیس میں نیا موڑ، پولیس کا اہم بیان سامنے آ گیا
یاد رہے کہ 2020 میں ناقص انتظامات کی اطلاعات پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے اسلام آباد مرغزار چڑیا گھر کو بند کر دیا گیا تھا۔ ہائیکورٹ کی جانب سے حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ چڑیا گھر میں کاون نامی ہاتھی کو اذیت ناک حالت میں رکھا گیا، جس کی وجہ سے اسلام آباد مرغزار چڑیا گھر کو مکمل طور پر بند کردیا جائے، اور کاون ہاتھی سمیت دیگر جانوروں کو 2 ماہ کے اندر محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کردیا جائے۔
واضح رہے کہ ان سارے معاملات کے بعد چڑیا گھر کو اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے حوالے کر دیا گیا تھا، جن کی جانب سے چڑیا گھر کو جانوروں کا ریسکیو سینٹر بنا دیا گیا تھا۔
لیکن کچھ عرصہ قبل سی ڈی اے ماحولیات کے ڈائریکٹر نے اس بارے میں وی نیوز کو بتایا تھا کہ مرغزار چڑیا گھر اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ کے حوالے اس لیے کیا گیا تھا کہ جانوروں کی منتقلی کا عمل درآمد فوری طور پر ہو سکے۔ اور اس وقت انہوں نے وزارت ماحولیاتی تغیرات اور سی ڈی اے سے کہا تھا کہ آپ یہاں اس وقت تک چڑیا گھر نہ بنائیں جب تک انٹرنیشل معیار کا چڑیا گھر نہیں بناسکتے۔ اب سی ڈی اے اسلام آباد میں عالمی معیار کے مطابق چڑیا گھر بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
مزید پڑھیں:ٹریل 5 واقعہ: اسلام آباد کی سیر گاہیں کتنی محفوظ؟
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی ڈائریکٹر رینا سعید نے کہا تھا کہ فیڈرل کیبنٹ کی جانب سے چڑیا گھر کی مینجمنٹ ہمارے حوالے کردی گئی تھی، جسے ہم نے ریسکیو سینٹر میں تبدیل کیا۔ اس وقت ہمارے پاس 50 جانور ہیں۔ 2020 سے لے کر اب تک 300 سے زائد جانوروں کو ریسکیو کیا جا چکا ہے۔ مستقبل میں اسے مارگلہ وائلڈ لائف سینٹر بنانے جارہے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں سوال یہ ہے کہ اس طرح کی بڑی تبدیلیاں اسلام آباد کے قدرتی حسن کو محفوظ رکھ پائیں گی؟