ان دنوں سندھ کے علاقے خیرپور میں آموں کا سیزن ہے۔ آم باغات سے گھروں تک پہنچنے میں مختلف مراحل سے گزرتا ہے جن میں سے ایک لازمی مرحلہ اس کا پیٹیوں میں پیک ہونا ہے۔ آم کی منڈیوں تک بحفاظت ترسیل کے لیے لکڑی کی پیٹاں استعمال کی جاتی ہیں۔
پیٹیاں کیسے بنتی ہیں؟
آم پیک کرنے والی پیٹیوں کی تیاری کے لیے آموں کے ہی ناکارہ درختوں اور سیفدے کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔
خیرپور کے علاقے پیرجو گوٹھ میں کام کرنے والے کاریگر سلیم محمد نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ لاڑکانہ شہر سے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مزدوری کے لیے آئے ہیں۔ 4 سے 5 افراد مل کر ایک پیٹی تیار کرتے ہیں جن میں سے ہر ایک پیٹی کا مختلف حصہ بناتا ہے اور ایک پیٹی بنانے کی مزدوری 5 روپے ہے۔
کاریگر نے بتایا کہ سارا دن کام کرکے فی کس 800 سے 1000 روپے تک مزدوری بنتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آم کی پیٹی کا سا ئز چھوٹا ہوتا ہے جس میں 8 کلو آم آتے ہیں جبکہ ایک پیٹی 70 روپے کی فروخت ہوتی ہے۔
لکڑی کی پیٹیاں گتے سے بہتر ہوتی ہیں
سلیم محمد کے مطابق لکڑی کی پیٹی آموں کے لیے موزوں ہوتی ہے اور ایک پیٹی کو متعدد بار استعمال کیا جاتا ہے جس کے بعد اسے جلانے کے کام بھی لایا جاتا ہے۔
روہڑی مارکیٹ میں پھلوں کے تاجر کفیل قریشی نے بتایا کہ لکڑی کی پیٹیاں گتے کی پیٹیوں سے کافی بہتر ہوتی ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ٹرانسپورٹیشن کے دوران پانی لگنے سے گتے کی پیٹیاں خراب ہوجاتی ہیں جس سے آم بھی خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے لیکن لکڑی کی پیٹیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تاجر نے کہا کہ ایک پیٹی آم کی ترسیل کے لیے 3 سے 4 بار استعمال کی جاسکتی ہے۔
پیٹی میں کیمیکل کیوں رکھا جاتا ہے؟
کفیل قریشی کے مطابق آم کو پکانے کے لیے اس میں کیلشیم کاربائیڈ رکھا جاتا ہے جس کے لیے کاغذ کی چھوٹی چھوٹی پڑیاں بنائی جاتی ہیں اور ایک پڑیا میں 20 گرام تک کیمیکل رکھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دنوں چین سے آنے والا ایک خصوصی کیمیکل بھی استعمال کیا جاتا جو عموماً ایکسپورٹ ہونے والے آم کے لیے کام آتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کیمیکل رکھے بنا آم نہیں پکتا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ درختوں پر آم کی تیاری کا مرحلہ بہت طویل ہوتا ہے اور اس طرح پکنے والے آم کو ’ٹپکے کا آم‘ کہتےہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ کئی سالوں سے استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ اس میں پھل اچھی طرح نہیں پکتا۔
کفیل قریشی کے مطابق چین سے آنے والے کیمیکل کی پڑیا پیٹی میں رکھنے سے آم کا رنگ اچھا رہتا ہے اور یہ انسانی صحت پر کوئی مضر اثر نہیں چھوڑتا اور عالمی معیار کے مطابق محفوظ بھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ویسے بھی اسے کاغذ میں لپیٹ کر رکھا جاتا ہے جس سے ایک گیس خارج ہوتی ہے جس کی تتپش کی وجہ سے آم پکتا ہے۔
آم کے باغ کے مالک سید علی رضا نے وی نیوز کو بتایا کہ کہ آم ایک ایسا پھل ہے جو پکنے کے بعد 2 سے 3 دن میں خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اگر اسے درخت پر قدرتی طور پر پکنے دیا جائے تو یہ فوراً خراب ہو جائے گااس لیے کچے آموں کو مناسب وقت پر درختوں سے توڑ کر مختلف منڈیوں تک اور پھر آگے بھجوا دیا جاتا ہے۔
سید علی رضا نے بتایا کہ آخر میں تاجر اپنی ضرورت کے مطابق پیٹیوں میں کیلشیم کاربائیڈ ڈالتے ہیں اور جب آم کو بیچنا ہوتا ہے تو اسے مطلوبہ مقدار میں مناسب طریقے سے پکایا جاتا ہے۔
یہ کیمیکل کیسے کام کرتا ہے؟
فوڈ لیبارٹری روہڑی کے سابق افسر محمد جاوید عالم نے بتایا کہ کیلشیم کاربائیڈ ہوا میں نمی کے ساتھ ری ایکشن کر کے ایسیٹیلین بناتا ہے جو ایتھیلین کی طرح کام کرتا ہے۔ ایتھیلین قدرتی طور پر پھلوں میں موجود ہوتا ہے اور انہیں پکنے میں مدد دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیلشیم کاربائیڈ کاربن کی ہی ٹھوس شکل ہے اور جب اسے پھلوں میں ملایا جاتا ہے تو یہ گہرا رنگ دیتا ہے جبکہ پھلوں میں رکھنے کے 2 سے 3 روز کے بعد یہ پاؤڈر بن جاتا ہے۔
یہ کیمیکل کتنا خطرناک ہے؟
کیلشیم کاربائیڈ ایسیٹیلین گیس خارج کرتا ہے جس میں آرسینک اور فاسفورس جیسے خطرناک کیمیکلز ہوتے ہیں۔ کیلشیم کاربائیڈ کے غیر محفوظ استعمال کے نتیجے میں یہ پھلوں پر لگ سکتا ہے جس کے نشانات پھل پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔
محمد جاوید عالم کے مطابق جب کیمیکل کو پھلوں میں موزوں مقدار سے زیادہ شامل کیا جاتا ہے تو خطرہ بڑھ جاتا ہے تاہم احتیاطاً آموں سمیت دیگر پھلوں کو استعمال سے پہلے صاف پانی سے اچھی طرح دھونا ضروری ہے تاکہ کیمیکل کے مضر اثرات سے محفوظ رہا جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ اب مارکیٹ میں ایتھیلین کے ذریعے بھی آم پکائے جارہے ہیں جو کیلشیم کاربائیڈ سے زیادہ محفوظ ہے۔
محمد جاوید عالم نے کہا کہ ایتھیلین ایک ہارمون ہے جو قدرتی طور پر پھلوں میں پایا جاتا ہےاور یہ کیمیکل اور بائیوکیمیکل عمل کو شروع اور کنٹرول کرکے پھلوں کے پکنے کے عمل کو منظم کرتا ہے۔