گورنر خیبر پختونخوا غلام علی نے جسٹس مسرت ہلالی سے قائم مقام چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کا حلف لے لیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائی کورٹ کی تاریخ میں چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز ہونے والی پہلی خاتون جج بن گئی ہیں۔
حلف برداری کی تقریب گورنر ہاؤس میں منعقد ہوئی جس میں نگران وزرا، پشاور ہائی کورٹ کی ججز، چیف سیکریٹری کے پی، آئی جی اور دیگر حکام نے شرکت کی۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس قیصر رشید 30 مارچ کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے جس کے بعد سینیئر ترین جج جسٹس روح الامین کو قائم مقام چیف جسٹس تعینات کیا گیا تھا۔
وہ صرف ایک روز ہی چیف جسٹس رہنے کے بعد 31 مارچ کو ریٹائر ہو گئے تھے۔
جسٹس قیصر رشید نومبر 2020 میں چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی کورونا سے وفات کے بعد چیف جسٹس بنے تھے تاہم گزشتہ پانچ سال سے جوڈیشل کمیشن کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے ججز کو سپریم کورٹ میں ترقی نہ دیے جانے کے باعث وہ پشاور ہائی کورٹ سے ہی ریٹائر ہو گئے تھے۔

چیف جسٹس قیصر رشید کی ریٹائرمنٹ کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے سینیئر ترین جج جسٹس مسرت ہلالی کی قائم مقام چیف جسٹس تعیناتی کا اعلانیہ جاری کیا تھا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق جوڈیشل کمیشن کی جانب سے مستقل چیف جسٹس کی تعیناتی تک جسٹس مسرت ہلالی قائم مقام چیف جسٹس ہوں گی۔
وکلا اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھی جسٹس مسرت ہلالی کی تعیناتی کو مثبت قرار دیا گیا ہے۔
مالاکنڈ سے تعلق رکھنے ولی جسٹس مسرت ہلالی نے خیبر لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سال 1983 میں ڈسٹرک کورٹ سے وکالت کا آغاز کیا اور مشکل حالات کے باوجود وکالت کا سفر جاری رکھا۔
جسٹس مسرت ہلالی سال 1988 میں ہائی کورٹ جبکہ 2006 میں سپریم کورٹ میں انرول ہو ئیں۔ بار کی سیاست میں بھی پیش پیش رہیں اور پہلی خاتون بار کونسل سیکریٹری بننے کے علاوہ دو بار نائب صدر بھی رہی ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی بار کی بھی اہم اور سرگرم رکن رہی ہیں اور وہ انسانی حقوق اورعدلیہ کی آزادی کے لیے ہمیشہ پہلی صف میں کھڑی نطر آئیں۔
جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا اور اس دوران بھگدڑ اور پولیس کارروائی کے دوران ان کا پاؤں بھی فریکچر ہو گیا تھا تاہم ایسے حالات میں بھی وہ عدلیہ اور وکلا تحریک کے لیے سرگرم رہیں۔