سوال تو بنتا ہے؟

جمعرات 8 اگست 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خود احتسابی اچھا عمل ہے مگر خود ترحمی ایک مرض ہے، ایسا مرض جو آپ کی جان بھی لے سکتا ہے۔ اپنی جان آپ لینے میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ کو اپنی زندگی اور اپنا وجود بے معنی لگنے لگتا ہے۔

بحثیت مجموعی پاکستانی قوم آج کل اس مرض کا بُری طرح شکار ہے۔

آپ نے کبھی غور نہیں کیا تو کیجیے گا۔ اکثر محافل میں بہت سطحی اور بے مقصد موضوع زیرِ بحث ہوتا ہے۔ سُنی سنائی باتیں بغیر سوچے سمجھے دہرائی جاتی ہیں۔

مثلاً، ’پاکستانی ایک ہجوم ہیں، قوم نہیں’۔ ‘کاش ہمیں کوئی لیڈر مل جائے’۔ ‘فلاں لیڈر بہت اچھا تھا، بس اُس کے مشیر اچھے نہیں تھے’۔ ‘چند سال فلاں کو مل جاتے تو اُس نے سب کچھ بدل دینا تھا’۔ ‘دنیا ہمارے خلاف سازشیں کرتی ہے’۔ ‘ہم قوم بن ہی نہیں سکتے’۔ ’ہم کبھی ترقی کر ہی نہیں سکتے’۔ ’جب تک چند سو بندوں کو پھانسی پر نہیں لٹکایا جاتا یہ ملک ٹھیک نہیں ہوسکتا’۔ ‘فلاں ملک دیکھیں وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا، اور ہم اُدھر کے اُدھر ہی ہیں’۔

ان میں سے کچھ باتیں جزوی طور پر درست ہو سکتی ہیں۔ مگر اکثر باتیں جُگالی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ بھئی کوئی کام کی بات ذہن میں نہیں آ رہی تو چُپ رہ لیں۔ ہر ملک معاشرے کی اپنی ساخت ہوتی ہے۔ اپنا پس منظر اور مسائل کی خاص نوعیت ہوتی ہے۔

ہاں اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپنی خامیوں کا جائزہ لینا چاہیے، دوسرے افراد اور قوموں سے سیکھنا چاہیے کہ انھوں نے کیسے ترقی کی اور وہ کیسے آگے بڑھے۔ آج ہم لوگ جو امریکہ اور یورپ کی ترقی اور مہذب معاشروں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، ذرا ان کی تاریخ پڑھنے کی زحمت بھی کیا کریں۔ روشن خیالی وہاں جُرم تھی۔ سائنس دانوں، عالموں، فلاسفروں کو سزا کے طور پر جلا دیا جاتا تھا۔ صفائی سُتھرائی کے برے حال تھے۔ امریکہ میں چند دہایاں پہلے تک عورت کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔ آج کے دن تک امریکہ میں کوئی خاتون سربراہِ مملکت نہیں بنی۔

سو سال بھی نہیں ہوا جب چینی قوم کے بارے میں یہ حتمی رائے سمجھی جاتی تھی کہ یہ افیونی قوم ہے، یہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ آج دیکھیں چین دنیا کی سُپر پاور بننے کو پر تول رہا ہے۔

ہمارے ملک میں بے شک معاشرتی، سماجی، سیاسی، اور مالی حالات اچھے نہیں مگر ہر وقت خود کو کوستے رہنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ قوموں کی زندگی میں بعض اوقات کئی صدیاں بھی کوئی زیادہ وقت تصور نہیں کیا جاتا۔ ایک اور بات یاد رکھنے کی ہے کہ دنیا جب سے سے بنی ہے اس نے اتنی تبدیلی نہیں دیکھی جتنی پچھلی دو صدیوں میں دیکھنی پڑی ہے۔ اسی طرح پچھلے تین برسوں میں تین سو برس سے بھی زیادہ بدلاؤ آیا ہے۔ جب کوئی معاشرہ بدل رہا ہوتا ہے تو پرانی سماجی، ثقافتی قدریں اور نظام ٹوٹ پھوٹ رہے ہوتے ہیں۔

ایسی صورتِ حال میں بے چینی، بے یقینی اور بناؤ بڑھ جاتا ہے مگر زندگی کا ایک اصول ہے کہ اُس نے آگے بڑھتے ہی رہنا ہے۔

جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں مایوسی اپنی انتہا پر ہے۔ ہر کوئی یہاں سے بھاگ جانا چاہتاہے۔ کسی کا امریکہ، کینیڈا یا یورپ کا ویزہ لگ جائے تو اسے خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے۔

ٹھیک ہے انسان کو بہتر مواقع کی تلاش میں رہنا چاہیے۔ ویسے بھی کہتے ہیں کہ حرکت میں برکت ہے۔ ہزاروں برسوں میں انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ رزق اور روز گار کی تلاش میں آتا جاتا رہا ہے۔ اور جب تک کائنات رہے گی یہ سب چلتا رہے گا۔

کوئی انسان اپنی دھرتی، قوم ملک سے کتنا ہی پیار کیوں نہ کرتا ہو، مگر آج موسمی حالات کسی جگہ کو رہائش کے قابل نہ رہنے دیں تو ہر ذی روح جو وہاں سے جا سکتا ہے، کوچ کر جائے گا۔ کسی نئی جگہ جہاں انسان کی دو نسلیں رہ لیں وہی ان کا وطن بن جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ ہمارے لوگ بھی اگر بہتر مواقع کی تلاش میں ترقی یافتہ ممالک یا دنیا کے دیگر خطوں میں جانا چاہتے ہیں تو یہ کوئی اچھنبے والی بات نہیں۔ البتہ ہر وقت اپنے آپ کو، اپنے ملک، اس کے نظام اور باسیوں کو کوستے رہنا کوئی صحت مندانہ طرزِ عمل نہیں۔ تنقید برائے اصلاح صحت مند عمل ہے جب کہ ہر وقت خود ترحمی ایک قابلِ ترس رویہ ہے۔

کیا روز ہمارے ملک میں سورج نہیں نکلتا، کئی پھول نہیں کھلتے؟ کیا کھیت کھلیان ہرے بھرے نہیں؟ کیا موسم نہیں بدلتے؟ کیا بارش نہیں ہوتی؟ کیا دھوپ نہیں لگتی؟ کیا لوگ ہنسنا بھول چُکے ہیں؟ کیا لوگ اپنے ایک دوسرے کا غم نہیں بانٹتے؟

ایسی بہت سے باتیں اور پہلو ہیں جو اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ ابھی زندگی باقی ہے۔ سیکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی کام یا بات کا ادھورا رہنے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ زندگی ابھی ہمیں ایک اور موقع دے رہی ہے۔

ہمارا کام صرف نیک نیتی سے کوشش کرنا ہے۔ نتائج سے بے پرواہ ہوکر ہمیں اچھے نتائج کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے کا یورپ ہو یا دو عالمی جنگوں کے بعد کی دنیا۔ انسان بہت سخت جان ذی روح ہے جس نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر کے اپنی بقا ممکن بنائی ہے۔ ایٹم بموں کی تباہی کا سامنا کر کے بھی اگر جاپان دوبارہ اپنے پاؤں پر چل کر ایک ترقی کی مثال بن سکتا ہے تو ہمارے حالات تو کئی طرح سے بہت بہتر ہیں۔ آدھا گلاس خالی ضرور ہے مگر آدھا گلاس بھرا ہوا بھی تو ہے نا؟آپ کا دھیان ادھر کیوں نہیں جاتا؟

ہاں البتّہ مایوسی اپنے اندر بھی ایک مثبت پہلو لیے ہوئے ہے کہ لوگ حالات کے حوالے سے متفکر ہیں اور بہتری چاہتے ہیں۔ یہ سوال بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ بہتری کی طرف سفر شروع کرنے کے لیے ہم نے کتنے قدم اُٹھائے ہیں؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp