سروائیکل کینسر پاکستانی خواتین کو ہونے والا تیسرا بڑا کینسر ہے جبکہ 15 سے 44 برس کی خواتین میں تیزی سے ہونے والا یہ سرطان دوسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان ایچ پی وی سینٹر کی سنہ 2023 کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 5008 خواتین اس کینسر کا شکار ہوتی ہیں اور 3197 خواتین موت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں بریسٹ کینسر سے سالانہ 44 ہزار خواتین کی اموات ریکارڈ
خواتین میں سروائیکل کینسر کی ایک وجہ غیر معیاری سینیٹری پیڈز بھی ہیں۔ پاکستان میں ہر دوسرے اسٹورز پر بکنے والے ان غیر معیاری پیڈز کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جن میں سے زیادہ تر پلاسٹک اور کیمیکلز سے بنائے جاتے ہیں۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ نازنین (فرضی نام) تقریباً ایک برس سے سروائیکل کینسر میں مبتلا ہیں۔ وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں تقریباً 2 برس پہلے یو ٹی آئی انفیکشن کا شکار ہوئی تھی کیوں کہ عام بکنے والے پیڈز کے استعمال کی وجہ سے ریشز ہو جانا میرے لیے معمول کی بات بن چکی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام لڑکیوں کی طرح پلاسٹک اور کیمیکل سے بنے ہوئے پیڈز کا استعمال کرتی تھیں جس سے انہیں دیگر مسائل ہونے لگے جن میں ریشز ہو جانا بہت معمولی تھا اور جب یہ مسئلہ بڑھتا گیا اور ڈاکٹر کے پاس جب وہ چیک اپ کے لیے گئیں تو گائناکولوجسٹ نے پہلی فرصت میں پیڈز کے استعمال کو ترک کرنے کی ہدایت کی۔
مزید پڑھیے: پاکستانی خواتین میں ای سگریٹ کا بڑھتا رجحان، اس کے نقصانات کیا ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد ریشز کا مسئلہ تو نہیں رہا تو انہوں نے ڈاکٹر کو بھی دوبارہ چیک نہیں کروایا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ گھر میں بھی مجھے جھجک محسوس ہوتی تھی اس طرح بہت ٹائم گزرنے کے بعد جب مجھے پیشاب کرنے کے دوران درد محسوس ہونا اور غیر ضروری ڈسچارج شروع ہو گیا تھا لیکن مجھے لگتا تھا کہ شاید میں پانی زیادہ نہیں پیتی اور کمزوری کی وجہ سے دونوں مسائل پیش آرہے ہوں گے لیکن پھر کچھ عرصے بعد مجھے یورین کے ساتھ بلڈ بھی آنے لگا۔
’لوگ کیا کہیں گے‘
انہوں نے کہا کہ اس ساری صورتحال کے بعد جب مسئلہ بہت زیادہ بڑھ گیا تو بہت ہمت کر کے انہوں نے اپنی والدہ کو بتایا اور والدہ نے بھی جھجھک کے مارے کسی اور کو کچھ نہیں کہہ پائیں۔
نازنین نے کہا کہ پھر جب ہم ڈاکٹر کے پاس گئیں تو معلوم ہوا کہ مجھے سروائیکل کینسر ہے جس کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا اور نہ ہی میری امی واقف تھیں کہ اس قسم کا بھی کوئی کینسر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں کیوں اس کینسر میں مبتلا ہوئی یہ میں خود بھی آج تک نہیں جانتی اور شاید اس کو وقت پر کنٹرول کر لیا جاتا لیکن چونکہ جب بلیڈنگ ہوتی تھی تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ شاید ماہواری کے دن آ چکے ہیں اس وجہ سے میں نے مخصوص ایام کے طویل ہوجانے کے سدباب کی دوائیں 2 ماہ استعمال کیں۔
مزید پڑھیں: مانع حمل ادویات کا طویل مدتی استعمال سروائیکل کینسر کے خطرے کا سبب ہے، ماہرین
انہوں نے کہا کہ میں اس وقت زیر علاج ہوں اور امید کرتی ہوں کہ میں یہ جنگ ضرور جیت جاؤں گی لیکن میں نے اپنے خاندان والوں سے آج بھی یہ بات چھپا کر رکھی ہے کہ میں اس قسم کے کینسر میں مبتلا ہوں۔
ہمارے معاشرے کی سوچ
انہوں نے کہا کہ کسی بھی مسئلے کی وجہ سے انسان اس کینسر میں مبتلا ہو سکتا ہے لیکن جب میں نے پاکستانی معاشرے میں اس کینسر کے پائے جانے کے حوالے سے خیالات سنے تو میں خود بھی دنگ رہ گئی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستانی معاشرے میں یہ مفروضہ بہت عام ہے کہ سروائیکل کینسر ایک سے زیادہ لوگوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔
سروائیکل کینسر میں تیزی سے اضافہ
اسلام آباد شفا انٹرنیشنل اسپتال کی گائناکولوجسٹ ڈاکٹر شہناز نے اس حوالے سے بتایا کہ سروائیکل کینسر کے کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں نقل و حمل بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
’اس معاملے میں مرد کے کیے کی سزا اکثر عورت کو ملتی ہے‘
ڈاکٹر شہناز نے کہا کہ کام کے سلسلے میں لوگ ایک شہر سے دوسرے اور بیرونی ممالک بھی جاتے رہتے ہیں اور جب ٹریولنگ زیادہ بڑھتی ہے تو ان کے پارٹنرز میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم جیسے معاشروں میں مردوں کی ٹریولنگ ہی سب سے زیادہ ہے تو وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ سروائیکل کینسر اگر عورت کو ہے تو یہ یقیناً مختلف پارٹنرز کے ساتھ رہ چکی ہے جو بالکل غلط ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کینسر کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے ڈنمارک پہلے نمبر پر، پاکستان کا کون سا نمبر؟
انہوں نے کہا کہ مرد کی عیاشی کو عورت کے سر تھوپنا سراسر غلط ہے کیونکہ ایسے مرد کی وجہ سے عورت سروائیکل کینسر کا شکار ہو رہی ہے اور 90 فیصد سروائیکل کینسر ایچ بی وائرس کے ٹرانسمیشن سے ہو رہا ہے۔
سروائیکل کینسر کی اسکریننگ نہ ہونا ایک بڑا المیہ
ڈاکٹر شہناز نے کہا کہ ملک میں سروائیکل کینسر کی اسکریننگ نہیں ہوتی ہے اور جب یہ کینسر ایڈوانس اسٹیج پر چلا جاتا ہے تب پتا چلتا ہے کہ یہ لاحق ہوچکا ہے لیکن اس وقت تک یہ کینسر بہت حد تک بڑھ چکا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو خواتین اس کینسر میں مبتلا ہوتی ہیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
’خواتین جھجھک کے باعث مرنا گوارا کرلیتی ہیں‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں عورت ویسے ہی اتنی مظلوم ہوتی ہے اگر وہ یہ بتا دے تو گھر میں طوفان برپا ہو جائے۔
مزید پڑھیں: تعلیم یافتہ خوشحال خواتین نارمل ڈلیوری کے مقابلے میں آپریشن کو کیوں ترجیح دیتی ہیں؟
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ عورت شرم اور عزت کے مارے بھی یہ بتانے سے گریز کرتی ہے اور بجائے علاج کے موت کو ترجیح دیتی ہے تاکہ وہ نہ سہی اس کی عزت بچ جائے۔
’بازار کے غیر معیاری سینیٹری پیڈز کا استعمال ترک کردیں‘
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ کچھ ریسرچ اسٹڈیز یہ بھی کہتی ہیں کہ خواتین میں سروائیکل کینسر کی ایک وجہ غیر معیاری پیڈز کا استعمال بھی ہے کیونکہ پلاسٹک اور کیمیائی مادوں سے بنے یہ پیڈز وجائنل ہیلتھ کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اس پر اب بھی ریسرچ جاری ہے مگر خواتین کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی وجائنل ہیلتھ کے لیے کبھی بھی غیر معیاری اشیا کا استعمال نہ کریں اور کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے انفیکشن کو بھی سنجیدگی سے لیں اور معالج کے پاس جاکر باقائدہ علاج کروائیں۔













