لیاری کا گینگسٹر رحمان ڈکیت جس نے اپنی ماں کو بھی نہیں بخشا

جمعہ 9 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارتی فلم ’گینگز آف واسع پور‘ کی کہانی حقیقت کے کافی قریب لگتی ہے لیکن وہ حقیقت نہیں بلکہ ایک فلم ہے۔ اس جیسی سینکڑوں فلمیں کراچی کے علاقے لیاری کی ہر گلی پر بن سکتی ہیں جہاں منشیات سے شروع ہونے والی کہانیاں موت کا ایسا کھیل بن جاتی ہیں کہ جس میں نہ ماں محفوظ رہتی ہے اور نہ ہی باپ اور انسان کا مقصد بس اپنی داداگیری جمانا اور پیسہ کمانا رہ جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: http://لیاری گینگ وار کی وہ فلمی لڑائی جو بچوں سے شروع ہو کر پورے خاندان کو ختم کر گئی

لیاری گینگ وار کی بنیاد رکھنے والے عبدالرحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت کی آج برسی ہے۔ اس نے ناجائز تعلقات کے شک کی بنیاد پر یا پھر اپنی مخبری کیے جانے کے شبے میں اپنی ماں کو قتل کردیا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رحمان ڈکیت پیدائشی گینگسٹر تھا اور کچھ کے مطابق وہ لیاری کا رابن ہڈ تھا کیوں کہ وہ غریبوں کی مدد کرتا تھا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق رحمان کے والد کا تعلق تو بلوچستان سے تھا لیکن اس کی پیدائش سنہ 1976 میں لیاری میں ہوئی تھی اور وہ صرف چھٹی جماعت تک پڑھ سکا تھا جس کے بعد وہ آوارہ گردی ہی کرتا دکھائی دیا۔

سینیئر کرائم رپورٹر رجب علی نے وی نیوز کو بتایا کہ رحمان ڈکیت کراچی بھر میں دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ رحمان ڈکیت ایک جرائم پیشہ گھرانے میں پیدا ہوا، 70 کی دہائی میں لیاری میں منشیات کا دھندا عام نہیں تھا لیکن لوٹ مار کی وارداتیں ہوا کرتی تھیں پھر 80 کی دہائی کے آغاز سے لیاری میں منشیات عام ہونے لگیں اور وہ کاروبار سر اٹھانے لگا۔

رجب علی نے کہا کہ رحمان ڈکیت کا باپ داد محمد عرف دادل اور چچا شیر محمد عرف شیرو دنوں بھائی علاقے میں غنڈہ گردی کے لیے مشہور تھے۔

مزید پڑھیے: لیاری گینگ وار کا کارندہ رہائی کے فوراً بعد تاجروں سے بھتہ لینے لگا، پولیس نے دھر لیا

رجب علی نے بتایا کہ داد محمد عرف دادل کے منشیات کے اڈے میں ایک کردار حاجی لالو بھی تھا جو کہ گینگ وار کے ایک اور بدنام کردار ارشد پپو کا باپ تھا، یہ سب مل کر کام کرتے تھے لیکن پھر ایک دوسرے کے مخالف ہوگئے۔ ان دونوں کے گروہوں کے درمیان گینگ وار کا ایسا سلسلہ ہوا جس نے ایک دوسرے کے کئی ساتھی، رشتہ دار اور دوست احباب کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

‎13  برس کی عمر میں رحمان ڈکیت کے خلاف پہلا مقدمہ

پولیس کے مطابق 13 برس کی عمر میں رحمان بلوچ نے سنہ 1989 میں تھانہ کلاکوٹ کے حدود میں حاجی پکچر روڈ پر واقع غلام حسین کی دکان کے پاس پٹاخا پھوڑنے سے منع کرنے پر محمد بخش نامی شخص کو چھری کے وار سے زخمی کر دیا تھا اس واقعہ کا مقدمہ تو درج ہوا لیکن کم عمری کی وجہ سے شاید پولیس نے رحمان بلوچ پر اتنی توجہ نہ دی یا شاید پولیس کی اس غفلت نے رحمان بلوچ کو رحمان ڈکیت بننے کا راستہ دکھایا۔

سنہ 1993 یعنی 16 برس کی عمر میں رحمان اور اس کے ساتھی عارف نے مل کر منشیات فروش ندیم اور ننو کو گولیاں مار کر ہلاک کیا یہ رحمان ڈکیت کے ہاتھوں قتل کی پہلی واردات تھی اور اس مقدمے میں بھی وہی ہوا جو پہلے مقدمہ میں ہو چکا تھا یعنی اس بار بھی پولیس نے رحمان بلوچ کو حراست میں لینے کی کوشش نہیں کی۔

جب رحمان نے اپنی والدہ کو قتل کیا

پولیس ذرائع کے مطابق سنہ 1995 میں جب عارف اور رحمان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ عثمان آباد میں ایک خالی عمارت میں موجود تھے پولیس نے وہاں کا محاصرہ کرلیا اور رحمان ڈکیت کے ساتھیوں کو تو پکڑ لیا گیا لیکن رحمان اس وقت دیوارپھلانگ کر بھاگ نکلا۔

اس واقعے کے بعد رحمان ڈیکت نے اپنی والدہ کو قتل کردیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق تو یہ قتل مخبری کے شبے میں ہوا لیکن ذرائع کے مطابق اس نے اپنی والدہ کو ناجائز تعلقات کی بنا پر قتل کیا تھا۔

رحمان ڈکیت کے والد کا انتقال اور حاجی لالو کی انٹری

رجب علی بتاتے ہیں کہ سنہ 1998 میں رحمان ڈکیت کے والد دادل کے انتقال کے بعد سارے معاملات حاجی لالو کے ہاتھ میں تھے کیوں کہ رحمان بلوچ اس وقت چھوٹا تھا اور اسی وجہ سے منشیات فروش گروہ کی کمان حاجی لالو کے پاس تھی۔

لالو کا گروہ منشیات کے علاوہ اغوا برائے تاوان کے منافع بخش دھندے سے جُڑ گیا تھا اور قتل و غارت میں بھی ملوث تھا، 13 برس کی عمر سے جرائم کا آغاز کرنے والے رحمان ڈکیت کو پولیس نے حاجی لالو کے بیٹے یاسر عرفات کے ہمراہ منشیات برآمدگی کے سلسلے میں سنہ 1995 میں رینجرز نے گولیمار سے گرفتار کر لیا۔ اس مقدمے میں رحمان ڈھائی سال تک جیل میں رہا۔

چونکہ یاسر عرفات حاجی لالو کا بیٹا تھا تو اس کی ضمانت ہوگئی جبکہ رحمان ڈکیت کی ضمانت نہ ہوسکی جس کے بعد یہ بات واضع ہوگئی کہ حاجی لالو نے اپنے بیٹے کو بچا لیا جبکہ رحمان جو اس گروہ کے بانی کا فرزند تھا اسے رہا نہیں کرایا گیا۔

نفرت کی چنگاری نے لیاری میں آگ بھڑکادی

رجب علی کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب رحمان ڈکیت کے قریبی ساتھیوں نے اپنا کام کیا اور اس کے ذہن میں یہ باتیں ڈالیں کہ دیکھو یاسر اس کا بیٹا تھا اسے چھڑوالیا گیا جبکہ تمہیں نہیں چھڑوایا گیا اور یہ وہ وقت تھا جب پہلی بار رحمان کے دل میں نفرت کی چنگاری آگ لگانے کے لیے بے تاب ہوئی۔

رحمان ڈکیت پہلی بار پولیس سے فرار ہونے میں کیسے کامیاب ہوا؟

سینیئر کورٹ رپورٹر جنید شاہ اس بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ سنہ 1997 کا واقعہ ہے جب تھانہ کلری پولیس رحمان ڈکیت کو پہلی بار عدالت میں پیش کرنے لا رہے تھے اور ایک عام تاثر یہ بنا تھا کہ رحمان ڈکیت سٹی کورٹ سے پولیس کو چکما دے کر فرار ہوا جو کہ غلط ہے۔

مزید پڑھیں: وہ اعترافی بیانات جن سے براہِ راست اعلیٰ سیاسی قیادت متاثر ہوئی

ان کا کہنا ہے کہ رحمان اس دن عدالت میں پیش ہی نہیں ہوا اور راستے سے ہی اسے اس کے ساتھیوں نے چھڑوالیا تھا جس کے بعد وہ بلوچستان کے علاقے حب جا پہنچا۔

رحمان نے 3 شادیاں کیں جس سے اس کے 13 بچے پیدا ہوئے، سنہ 2006 تک رحمان ڈکیت 34 دکانوں، 33 گھروں، 12 پلاٹس اور 150 ایکڑ زرعی زمین کا مالک بن چکا تھا۔

رحمان ڈکیت کی رہائی اور گینگ وار میں شدت

 رجب علی کے مطابق اگر اس دن رحمان ڈکیت فرار نہ ہوتا تو شاید لیاری میں اتنا خون خرابا نہ ہوتا لیکن رحمان کے فرار ہوتے ہی  2 گروپ وجود میں آتے ہیں ایک وہ جو حاجی لالو کے ماتحت تھا اور ایک نیا گروپ جسے رحمان ڈکیت نے لیڈ کیا۔ حاجی لالو کے قریبی لوگ ایک طرف اور رحمان کے قریبی ساتھی دوسری طرف ہوگئے یہ وہ لوگ تھے جو کاروبار میں ایک دوسرے کا سہارا بنا کرتے تھے لیکن اب یہ ایک دوسرے کے نشانے پر تھے۔

لیاری میں موت کا رقص

سابق ایس ایس پی سی ٹی ڈی فیاض خان کے مطابق حاجی لالو نے رحمان ڈکیت کو قابو کرنا چاہا لیکن اس وقت رحمان حاجی لولو سے بدک چکا تھا اور اپنے گینگ کو ایکٹو کر چکا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہیں سے رنجشیں پیدا ہونا شروع ہو چکی تھیں، اب رحمان ڈکیت اور حاجی لولو کے فرزند ارشد پپو گروپ آمنے سامنے تھے ارشد پپو نے کئی حملے بھی کیے رحمان کو مارنے کے لیے اور مختلف الزامات بھی لگاتا رہا۔

ارشد پپو نے رحمان کے علاقے میں حملے کرنے کا سلسلہ برقرار رکھا اور اس کے پاس 4 ہی لڑکے تھے لیکن مرنے مارنے کو تیار تھے، اس وقت رحمان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس نے کیسے اپنا گروپ مضبوط کر لیا ہے۔

حاجی لالو، رحمان ڈکیت، ماما فیضو اور عزیر جان بلوچ

رجب علی کے مطابق حاجی لالو جو کہ شیر شاہ کباڑی مارکیٹ کی یونین کا صدر تھا اور شیر شاہ کباڑی مارکیٹ ایسی مارکیٹ تھی جہاں کراچی سے چوری ہونے والی گاڑیاں اور پرزہ جات فروخت کیے جاتے تھے وہاں سے حاجی لالو کو اچھا خاصہ بھتہ ملا کرتا تھا اور یہ ہی نہیں بلکہ بلوچستان سے آنے اور جانے والی بسوں سے بھی اچھی کلیکشن ہوا کرتا تھا تو رحمان ڈکیت چاہتا تھا کہ شیرشاہ کباڑی مارکیٹ سے جمع ہونے والی رقم وہ لیا کرے۔

یہ بھی پڑھیے: لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار عزیربلوچ 39ویں کیس میں بھی بری

پھر معاملہ اتنا بڑھا کہ رحمان ڈکیت نے اعلان کیا کہ وہ شیرشاہ کباڑی مارکیٹ کی صدارت کے لیے اپنا امیدوار ماما فیضو کو کھڑا کروں گا۔ ماما فیضو نہ صرف ایک ٹرانسپورٹر تھا بلکہ رحمان ڈکیت کے بعد لیاری کا ڈان کہلانے والے عزیر بلوچ کا باپ بھی تھا۔

عزیر بلوچ کے باپ کا اغوا کے بعد قتل

رجب علی کے مطابق جب یہ معاملہ سامنے آیا تو حاجی لالو کے بیٹے ارشد پپو نے عزیر بلوچ کے والد اور رحمان ڈکیت کے قریبی ساتھی فیض محمد عرف فیضو کو اغوا کرلیا جس پر بہت شور شرابا ہوا پولیس تک بھی اطلاع پہنچ چکی تھی لیکن ارشد پپو نے رحمان ڈکیت کو فون کرکے کہا کہ تم مان نہیں رہے تھے اس لیے میں فیضو کو مار رہا ہوں اور اس طرح فیضو قتل کردیا گیا۔

جب ارشد پپو نے رحمان ڈکیت کے والدین کی قبروں کو بم سے اڑا دیا

فیاض خان کے مطابق اس قتل کے بعد ایک نہ رکنے والے گینگ وار کا آغاز ہوا اور ایک ایسا بدترین واقعہ پیش آیا کہ جو گینگ وار پر ہمیشہ کے لیے داغ رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ گینگ وار کے بھی اصول ہوتے ہیں لیکن ارشد پپو نے کسی چیز کا خیال نہیں رکھا اور میوہ شاہ قبرستان میں رحمان ڈکیت کے والدین کی قبروں ڈائنامائیٹ سے اڑا دیا جس کے بعد رحمان نے ارشد پپو کے رشتہ دار اور دوست احباب کو چن چن کر مارنا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ دونوں طرف سے شروع ہوا اور اس میں شدت تب آئی جب ارشد پپو نے عزیر بلوچ کے والد کو قتل کردیا۔ عزیر بلوچ اس وقت جیل میں تھا اور یہیں سے اس جنگ کو لیاری گینگ وار کا نام ملا۔

رجب علی بتاتے ہیں کہ رحمان اور پپو کی دشمنی میں حالات اس قدر بگڑے کہ رحمان ڈکیت کو لیاری سے بلوچستان فرار ہونا پڑا اور پھر سابق ایس پی لیاری فیاض خان نے خفیہ اطلاع پر پپو کو گرفتار کر لیا۔ فیاض خان کے مطابق پولیس اہلکاروں کو ارشد کی تلاش کے لیے اس کے فلیٹ کے اندر بھیجا گیا اور پھر ایک جگہ سے ارشد پپو کو انہوں نے حراست میں لیا اور لیاری کی تنگ گلیوں میں موٹر سائیکل پر بٹھا کر اسے گاڑیوں تک پہنچایا گیا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں بھتہ خور گینگ گروہ کہاں سے آپریٹ ہوتا ہے؟

رجب علی کے مطابق پپو کی گرفتاری کے بعد رحمان ڈکیت کو لیاری واپس آنے کا موقع ملا اور اس نے بدلہ لینا شروع کردیا اور مخالفین کو ٹھکانے لگاتا گیا۔

رحمان ڈکیت لیاری تک محدود نہ رہا بلکہ لیاری کے باہر بھی اجرتی قاتل کے روپ میں پہچانا جاتا رہا۔ 28 اگست 2001 ساتھیوں کے ساتھ مل کر 2 کروڑ روپے کے عوض ملیر پل پر کراچی انڈر ورلڈ کے ڈان شعیب خان پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں شعیب خان محفوظ رہا جبکہ 4 پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔

پولیس ذرائع کے مطابق سنہ 2004 کو اس نے بلوچستان کے علاقے حب ندی کے قریب اپنے ساتھیوں کے 5 ایرانی باشندوں کو قتل کیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ارشد پپو گینگ کے کارندے تھے۔ رحمان ڈکیت اور ارشد پپو کے مابین چلنے والی اس گینگ وار میں اس کے ہر کارندے کی الگ کہانی ہے اور اس طرح کی قتل و غارت گری کی خوفناک داستان شاید ہی کہیں ملے۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ رحمان ڈکیت کے خاتمے کے لیے ایک ٹاسک فورس بنائی گئی جس کی قیادت چودھری اسلم شہید کے پاس تھی۔ لیاری میں رحمان ڈکیت کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو اس نے اسی میں عافیت جانی کہ بلوچستان فرار ہو جائے لیکن چودھری اسلم اور ان کی ٹیم ایک دن اچانک بلوچستان پہنچ گئی۔ اس اچانک آپریشن کا رحمان کو بھی علم نہیں ہو سکا اور وہ خود کو بچاتے بچاتے زخمی حالت میں گرفتار ہو گیا تھا۔

رحمان ڈکیت ایک بار پھر کیسے فرار ہونے میں کامیاب ہوا؟

اس حوالے سے رجب علی نے بتایا کہ رحمان ڈکیت بھتہ خوری، سپاری لینے، قتل و غارت گری اور گٹکا اسمگلنگ سمیت ایک ایسا ڈان بن چکا تھا جس سے کراچی کا کوئی تاجر محفوظ نہیں تھا۔ اتنے سارے الزامات کے بعد گرفتار ہوا تو کراچی کے علاقے میٹرویل میں رکھا گیا تاکہ اس بار فرار نہ ہونے پائے لیکن رحمان ڈکیت نے ایک ایسی چال چلی کہ جس میں خود پولیس پھنس گئی۔

ذرائع کے مطابق رحمان ڈکیت نے ایک لاکھ روپے کے عوض گھر سے کھانا منگوایا جس کا مقصد یہ تھا کہ جس پولیس اہلکار کے ذریعے کھانا منگوایا جائے گا رحمان کے ساتھی اس اہلکار کی مدد سے رحمان تک پہنچیں گے پہلی بار تو اس میں ناکامی ہوئی لیکن دوسری بار کھانا منگوانے پر رحمان کے ساتھی اس گھر تک پہنچ گئے اور کچھ ہی دنوں میں رحمان کو ٹوٹی ٹانگ کے ساتھ فرار کروا دیا گیا اور ایک بار پھر رحمان اپنے کام میں لگ گیا۔

 لیاری گینگ وار سے پیپلز امن کمیٹی تک کا سفر

رحمان ڈکیت نے مقبولیت حاصل کرنے کے بعد سیاست میں قدم رکھنا چاہا تو فلاحی کاموں کا اغاز کیا۔ باکسنگ کلب سے لے کر کئی اسکولوں اور کئی خاندانوں کی کفالت تک رحمان لوگوں کی خدمت کرتا رہا اور پیپلز پارٹی کی سندھ اور وفاق میں حکومت بننے کے بعد پیپلز امن کمیٹی کی بنیاد رکھی۔

کمیٹی کی کئی بار اس وقت کے وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ملکی میڈیا پر دھڑلے سے حمایت۔ لیاری میں پولیس افسران کی تعیناتی ہو یا سیاست دانوں میں سیٹوں کی تقسیم یہ سب رحمان کے اشاروں سے ہوتے تھے۔

ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری کی مقامی حکومت کے معاملے پر بات نہ ماننے کی صورت میں پیپلز پارٹی نے رحمان سے ہاتھ کھینچ لیا اور رحمان کے خلاف ایک بار پھر چودھری اسلم کو میدان میں اتاردیا گیا۔ پولیس نے ایک بار پھر رحمان اور اس کے ساتھیوں کے لیے زمین تنگ کردی۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے رحمان نے بلوچستان نکلنے کی کوشش کی اور چودھری اسلم نے اس کا پیچھا کیا۔ فوج کے تعاون سے رحمان کو اس کے خفیہ نمبر سے ٹریس کیا گیا اور تیسری باررحمان ڈکیت پولیس کی حراست میں تھا۔ 9 اگست 2009 کو ایک پولیس مقابلے میں رحمان ڈکیت ساتھیوں سمیت مارا گیا جس کی تصدیق اس وقت کے کراچی پولیس کے سربراہ وسیم احمد نے کی اور کہا کہ یہ کراچی پولیس کی بڑی کامیابی ہے۔

مزید پڑھیے: خوف کی علامت سمجھے جانے والا ساربان بلوچ کیسے مارا گیا؟

یوں لیاری گینگ وار کی بنیاد رکھنے والے ایک منشیات فروش کے بیٹے رحمان ڈکیت کا قصہ تمام ہوا۔ اس وقت جن صحافیوں نے گینگ وار کو کوور کیا ان کی اکثریت کا کہنا ہے کہ لیاری گینگ وار کے ہر گروہ کا کارندہ اپنے اندر ایک ’فلم‘ ہے۔

لیاری ایک دنیا ہے جہاں کبھی تجارت ہوتی تھی، فٹبال ہوا کرتی تھی، باکسنگ کے کھلاڑی تھے، خود عزیر جان بلوچ کے والد اپنے بیٹے کو فٹ بالر بنانا چاہتے تھے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایسے ہی لیاری کے کونے کونے میں ان گنت کہانیاں ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بے پردہ ہو کر سب کے سامنے ہوں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp