ارشد ندیم تاریخ میں رقم، ماضی میں کب کب پاکستان کا جھنڈا سب سے اونچا رہا؟

جمعہ 9 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ارشد ندیم۔ نام ہی کافی ہے اور پاکستان کے لیے تو یہ نام فخر کا نشان بن گیا ہے۔ کیونکہ ارشد ندیم نے 40 سال بعد کسی بھی اولمپکس مقابلے میں طلائی تمغہ حاصل کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا۔ یہی نہیں 32 سال کے بعد پاکستان کوئی بھی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

پیرس اولمپکس کے اس جیولین ایونٹ کا ہر کوئی بے چینی سے انتظار کررہا تھا۔ سب کی نگاہیں مرکوز تھیں بھارت کے نیرج چوپڑا اور پاکستان کے ارشد ندیم پر، جو پہلی تھرو نہ کرسکے تھے لیکن جب دوسری تھرو کرنے آئے تو ہر ایک کو چونکائے بغیر نہ رہے۔ ارشد ندیم نے 92.97 میٹر تھرو کی جو اولمپکس کا اب نیا ریکارڈ بن گیا ہے۔

اس کے بعد تو اس ایونٹ کے دیگر 11 کھلاڑی ارشد ندیم کے اس ہدف کے قریب تک نہ آسکے۔ یہاں تک کہ نیرج چوپڑا بھی ارشد ندیم کے سامنے بیک فٹ پر رہے۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ ارشد ندیم نے وہ کارنامہ سر انجام دیا جس کا 40 سال سےانتظار ہو رہا تھا۔ پیرس اولمپکس میں پاکستان کا یہ پہلا تمغہ تھا۔ یہ یوم آزادی سے قبل ارشد ندیم کی طرف سے پاکستانی عوام کو بہترین تحفہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کامیابی کے بعد وہ خود سجدہ ریز ہوگئے۔

مزید پڑھیں:ماں کی دعائیں رنگ لے آئیں، ارشد ندیم گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب

دیکھا جائے تو ارشد ندیم نے تن تنہا بغیر کسی حکومتی سپورٹ کے اپنے سفر کا آغاز کیا اور آج وہ طلائی تمغہ حاصل کرنے میں سرخرو ہوگئے۔ یاد رہے کہ کامن ویلتھ گیمز 2022 میں پاکستان کے جیولین تھرو میکر ارشد ندیم نے ریکارڈ ساز انداز میں سونے کا تمغہ جیت کر دھوم مچائی تھی۔ اس کامیابی کے بعد ان کا نام ہر زبان پر تھا۔

پاکستان اپنے قیام کے 77 سال مکمل کررہے ہیں اور یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان اور اس کےکھلاڑیوں نے ہر کھیل میں نام روشن کیا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی میدان ہو، سبز ہلالی پرچم جب جب کامیابی اور کامرانی کے ساتھ لہرایا تو ہر پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا۔

یہ بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ کئی ایسے کھیل جو پاکستان میں ناپید ہیں جن کے بارے میں عام پاکستانیوں کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہے اگر اس میں پاکستانی کھلاڑیوں نے کامیابی حاصل کی تو پاکستانی بھی اس کھیل سے جڑ گئے۔ جیسے جیولین تھرو میں ارشد ندیم کے شاندار کارنامے کو ہی لے لیں۔ جس کھیل سے وہ منسلک ہیں اس کے متعلق پاکستان میں بہت کم افراد کو معلومات تھی لیکن ڈیڑھ برس کے عرصے میں ارشد ندیم نے ناصرف اپنا اور ملک نام روشن کیا بلکہ جیولین تھرو کے کھیل کو پاکستان میں عام کرایا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد سے کھیلوں کے سفر میں ناکامی بھی آئی لیکن پھر پاکستان سرخرو بھی ہوا۔

ہاکی

کسی زمانے میں ہم ہاکی پر فخر کرتے تھے کیونکہ یہ وہ کھیل تھا جس کو ہم سے کئی یورپی ممالک نے سیکھا۔ ہم جب بھی کسی ٹورنامنٹ میں شرکت کرتے تو جیت ہی ملتی۔ اولمپکس کے مقابلے پاکستانی ٹیم کے بغیر ادھورے رہتے اور اب یہ عالم ہے کہ یہ ٹیم اس بار پیرس اولمپکس میں کوالیفائی تک نہ کرسکی۔

مزید پڑھیں:صدر، وزیراعظم، افواج پاکستان اور دیگر رہنماؤں کی ارشد ندیم کو مبارکباد

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اب تک 16 اولمپکس میں قسمت آزما چکا ہے۔ اور فخریہ بات یہ ہے کہ ان میں سے 10 ایسے مقابلے تھے جن میں پاکستان ابتدائی 3 پوزیشن پر رہا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے 3 بار طلائی، اور اتنی ہی بار چاندی اور 4 مرتبہ کانسی تمغے حاصل کیے۔ یہ بھی اپنی جگہ اعزاز ہے کہ پاکستان اب تک 3 بار چیمپئنز ٹرافی، 8 مرتبہ ایشیئن گیمز، 3 بار ایشیا کپ، 2 بار ایشیئن ہاکی چمپئین ٹرافی کے ٹائٹل میں طلائی تمغے اور بڑے اور اہم مقابلوں میں لگ بھگ 70 تمغے جیتے ہیں۔

ایک دور وہ بھی تھا جب اصلاح الدین، رشید جونیئر، سمیع اللہ، کلیم اللہ، منظور جونیئر، حسن سردار اور شہباز احمد جیسے شہرہ آفاق کھلاڑیوں کے نام ہر ایک کے لبوں پر تھے۔ وہ وقت بھی تھا جب ہاکی ٹیم کے 11 کے 11 کھلاڑیوں کے نام ذہن نشین تھے اور اب ذرا آس پاس بیٹھے کسی رفقا سے معلوم کریں تو وہ بمشکل ایک بھی پاکستانی کھلاڑی کا نام نہ لے پائیں گے۔

المیہ یہ ہے کہ پاکستان نے آخری مرتبہ عالمی کپ 1994 میں جیتا اور اس کے بعد پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بری سے بری ہوتی چلی گئی۔ کسی ایونٹ میں شرکت سے پہلے ہی سب کو معلوم ہوتا ہے کہ سوائے ہار کے کچھ نہیں حاصل ہوگا۔

کرکٹ

ہر پاکستانی کے انگ انگ میں کرکٹ دوڑتی بھاگتی پھرتی ہے۔ 1952 میں جب پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھا تو ابتدا سے ہی تاریخ رقم ہوئی۔ حنیف محمد، فضل محمود، کاردار یا کوئی بھی کھلاڑی ہو سبھی نے شروعات سے اپنے کھیل سے متاثر کیا۔

کرکٹ کے عالمی کپ کا پہلا مقابلہ تو پاکستانی ٹیم کے لیے متاثر کن نہیں رہا۔ لیکن 1975 کے عالمی کپ کے بعد پاکستان ہر بار عالمی کپ کے حصول کے قریب تر ہوتا لیکن قسمت ساتھ نہ دیتی۔ 1986 میں جب شارجہ میں جاوید میاں داد نے آخری گیند پر چھکا مارا تو پاکستان نے آسٹریلشیا کپ ہی نہیں جیتا بلکہ اس جیت نے پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔

مزید پڑھیں:کچھ تو سیکھ لو ارشد ندیم!

1987 میں عالمی کپ کا دنگل ہوا تو ہر کسی کو یقین تھا کہ پاکستان ہی کپ اٹھائے گا لیکن سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کے بعد ٹیم ہی نہیں ہر پاکستانی کا دل ٹوٹ گیا۔ کئی تو ایسے تھے جنہوں نے اداس اور مایوس ہو کر کرکٹ دیکھنا ہی چھوڑ دی۔ لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ اگلے عالمی کپ میں پاکستان فاتح بن کر آسٹریلیا سے لوٹے گا۔

1992 میں جب پاکستانی ٹیم نے فائنل میں برطانیہ کو ہرایا تو ملیبورن سے لاہور تک جشن کا سماں تھا۔ کچھ ایسا ہی جوش اور جذبہ اس وقت بھی تھا جب 1999 میں پاکستان فائنل میں پہنچا لیکن اس بار کہانی بالکل برعکس ہوئی۔ مضبوط ترین پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے مقابلے میں باسانی زیر ہوگئی۔ پھر 10 سال کے عرصے میں پاکستانی ٹیم نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔

2009 میں وہ وقت بھی آیا جب یونس خان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے سری لنکا کو ٹی 20ورلڈ کپ کے فائنل میں پچھاڑ دیا۔ ایک بار پھر ملک میں ہر چہرہ دمک رہا تھا۔ یہ جیت اس اعتبار سے بھی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ اس سے پہلے کھیلے جانے والے فائنل میں پاکستان، روایتی حریف سے جیتا ہوا میچ ہار بیٹھی تھی۔

اس فتح کے بعد پاکستان کو کبھی اسپاٹ فکسنگ تو کبھی کسی اور تنازعے کا سامنا کرنا پڑا، کبھی کسی کھلاڑی نے اپنی انفرادی کارکردگی سے دنیا بھر میں پاکستان کا ڈنکا بجایا۔ جون 2017 میں سرفراز احمد کی قیادت میں چمپیز ٹرافی کا فائنل بھلا کون بھول سکتا جب یک طرفہ مقابلے کے بعد پاکستان نے بھارت کو شکست دی تو بھارت میں سکتہ اور ماتم چھا گیا لیکن پاکستان میں جشن ہی جشن تھا۔

مزید پڑھیں:پیرس اولمپکس: زیادہ حسین و جمیل ہونے کے سبب خاتون ایتھلیٹ ایونٹ سے باہر

یہی نہیں بھلا کون بھول سکتا ہے 2021 کا ٹی 20 ورلڈ کپ کا وہ ابتدائی میچ جس میں پاکستانی ٹیم نے کوہلی الیون کا جلوس نکال دیا اور یہ میچ بغیر کسی نقصان کے 10 وکٹوں سے جیتا۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے حالیہ عرصے میں ملی جلی پرفارمنس کا اظہار کیا۔

اسکواش

کرکٹ اور ہاکی طرح اسکواش بھی ہمارا فخر تھا۔ ہاشم خان ، روشن خان، جہانگیر خان، قمر زماں، رحمت خان اور جان شیر خان کی اسکواش کورٹ میں حکمرانی تھی۔ کیا یہ اعزاز کم تھا کہ جہانگیر خان 10 بار ورلڈ اوپن جیتا۔ جان شیر خان نے یہ کارنامہ 8 بار دہرایا۔ لیکن پھر ان کے بعد جیسے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

پاکستان میں اسکواش جیسے مشہور اور کامیاب کھیل کا زوال 20 ویں صدی کے آخر ہی میں ہو گیا تھا جس کو انتظامیہ اور ناقص پالیسی کی وجہ سے نظر انداز کردیا گیا اور آج نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان کھلاڑی تو ہیں لیکن کوئی جہانگیر یا جان شیر خان کی طرح کورٹ میں کامیابی کے جھنڈے نہیں گاڑ رہا۔

فٹ بال

فٹ بال میں پاکستان کھی قابل قدر کاردگی نہ دکھا سکا۔ فیڈریشن میں سیاسی بنیادوں پر عہدے تقسیم ہوتے رہے یہی وجہ ہےکہ کئی بار فیفا نے فیڈریشن کو معطل کیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کھیل میں ملک بھر میں باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ انہیں مواقع دینے کا ہے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے بھری ہے کہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کا قیام 5 دسمبر 1947 کو ہوا تھا اور قائدِاعظم محمد علی جناح اِس کے چیف پیٹرن بنے۔

مزید پڑھیں:پیرس اولمپکس: 100 میٹر ریس میں منفرد ریکارڈ قائم

باکسنگ

1988 میں سیول اولمپکس میں اس وقت پاکستان کا نام روشن ہوا جب حسین شاہ نے باکسنگ میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ ہر جانب حسین شاہ کی دھوم مچ گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حسین شاہ کے بیٹے شاہ حسین شاہ نے 2020 میں ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اور پھر 2020 میں ہی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے باکسر محمد وسیم اس وقت شہ سرخیوں میں آئے جب انہوں نے جنوبی کوریا کے شہر سیول میں ورلڈ باکسنگ کونسل میں سلور فلائی ویٹ ٹائٹل جیتا۔

پہلوانی

2022 میں کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کے 6 پہلوان رنگ میں اترے۔ ان میں سے 5 پہلوانوں تمغے جیتے اور یہیں سے انعام بٹ، زمان انور اور شریف طاہر نے چاندی کے جبکہ علی اسد اور عنایت اللہ نے کانسی کے تمغے حاصل کیے۔ انعام بٹ تو اس ایونٹ کے بعد مرکز نگاہ رہے۔

دیگر کھیلوں میں نمایاں کارکردگی

1994 میں اسنوکر میں پہلی دفعہ محمد یوسف نے آئس لینڈ کے جانسن کونو، کو شکست دے کر ورلڈ اسنوکر چیمپئن جیتی۔ جس کے 18 سال بعد محمد آصف نے پاکستان کو دوسری دفعہ اسنوکر کا ورلڈ چمپین بنایا۔

ٹینس کی بات کی جائے تو اعصام الحق نے کئی مواقع پر اپنے بہترین کھیل سے پاکستانی پرچم سر بلند کیا ہے۔ مختلف بین الاقوامی مقابلوں میں وہ کوئی بڑا اعزاز تو حاصل نہ کرسکے لیکن اعلیٰ کھیل کی وجہ سے وہ جیت کے قریب رہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp