سپریم کورٹ نے چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا سعید کی برطرفی روکتے ہوئے وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد بھی روک دیا ہے، اٹارنی جنرل نے چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ کے عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن واپس لینے کی یقین دہانی کرادی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا مونال سمیت نیشنل پارک میں قائم تمام ریسٹورنٹس بند کرنے کا حکم
مارگلہ نیشنل پارک میں تجارتی سرگرمیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کابینہ سیکریٹری کامران علی افضل سمیت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور مونال ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل کو فوری عدالت طلب کرلیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے پہنچنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سیکریٹری کابینہ کی موجودگی کے بارے میں دریافت کیا، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکرٹری کابینہ وزیر اعظم کے ساتھ اجلاس میں شریک ہیں، جس پر چیف جسٹس بولے؛ سیکرٹری کابینہ کو اجلاس سے فوری باہر بلاکر عدالت لائیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان واحد ملک ہے جہاں فوج اور سی ڈی اے براہ راست لڑائی کررہے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سیکریٹری کابینہ کو فوراً عدالت طلب کیا جائے، آج عدالت نے اہم فیصلہ کرنا ہے، جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ جی سر سیکرٹری کابینہ کو پیغام بھجوایا ہے آجائیں گے، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری کابینہ آجائیں تو پھر کیس کی سماعت شروع کرتے ہیں۔
وقفہ کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو سیکریٹری کابینہ کامران افضل نے بتایا کہ مارگلہ نیشنل پارک وزارت داخلہ کو سپرد کرنے کی سمری انہوں نے نہیں بھیجی تھی بلکہ وزیراعظم نے خود حکم جاری کیا تھا جو ان کے آفس تک پہنچا، اس موقع پر چیف جسٹس بولے؛ آپ نے وزیراعظم کو کہا نہیں کہ یہ رولز کی خلاف ورزی ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا سی ڈی اے کو وائلڈ لائف بورڈ کے دفاتر واپس کرنے کا حکم
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کا اختیار نہیں کہ کچھ بھی کر دیں، رولز بیوروکریٹس نے ہی بتانے ہوتے ہیں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے، اٹارنی جنرل آپ کو علم ہی نہیں کہ چیزیں کیسے ہو رہی ہیں۔
دوران سماعت سیکرٹری کابینہ کامران افضل کی جانب سے وزیراعظم کو صاحب کہنے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غلامی کی زنجیریں توڑ دیں، وزیراعظم صاحب نہیں ہوتا، شہباز شریف صاحب کہیں تو سمجھ آتی ہے، وزیراعظم کے ساتھ ‘صاحب’ مت لگائیں۔
مزید پڑھیں: مونال کے مالک نے ملازمین کے نام آخری خط میں کیا لکھا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بیوروکریٹس عوام کے نوکر ہیں، ہم نے ابھی تک غلامی والی سوچ ختم نہیں کی، سیکرٹری کابینہ کو توہین عدالت کا نوٹس کر دیتے ہیں، آئین پاکستان کو مذاق بنا دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا نیشنل پارک کی دیکھ بھال کرنا وزارت داخلہ کا کام ہے، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی ختم کر چکے ہیں جو اب پارک بھی دیکھیں گے، تعلیم اور صحت سمیت سب کچھ وزارت داخلہ کو دے دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی سے استفسار کیا کہ وائلڈ لائف بورڈ وزارت داخلہ کو منتقل کرنے کا کس نے کہا تھا، سیکریٹری کا جواب تھا کہ ان کی وزارت نے ایسی کوئی سمری نہیں بھیجی، یہ وزیر اعظم کا فیصلہ تھا۔
مزید پڑھیں: کیا وائلڈ لائف بورڈ کی منتقلی ماحولیاتی تباہی ہے؟
عدالتی استفسار پر سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی کا کہنا تھا کہ چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا سعید کو ہٹانے کا وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر رومینہ خورشید عالم نے کہا تھا، جس پر رومینہ خورشید عالم بولیں؛ میں نے رعنا سعید کو ہٹانے کا نہیں کہا تھا۔
اس موقع پر چیف جسٹس بولے کہ یا تو سیکرٹری صاحب جھوٹ بول رہے ہیں یا پھر رومینہ خورشید صاحبہ، کیا کسی نے اوپر سے کال کی یا خلائی مخلوق سے کال آئی، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا نیشنل پارک وزارت داخلہ کے حوالے کیا جانا چاہیے، جس پر سیکریٹری اور کوآرڈینیٹر موسمیاتی تبدیلی نے نیشنل پارک وزارت داخلہ کو دینے کی مخالفت کردی۔
مزید پڑھیں: فیکٹ چیک: کیا اب اسلام آباد کے مارگلہ ٹریکس پر ہائیکنگ کے لیے ٹکٹ لینا ہوگا؟
سپریم کورٹ نے چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا سعید کی برطرفی روکتے ہوئے وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد بھی روک دیا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے عمل کو روکنے سمیت چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ کے عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن بھی واپس لینے کی یقین دہانی کرادی، ان کا کہنا تھا کہ منگل کو متوقع کابینہ کے اجلاس میں معاملہ وزیر اعظم کے علم میں لائیں گے۔
سپریم کورٹ نے وائلد لائف بورڈ سمیت تمام معاملات وزیر اعظم کے نوٹس میں لانے کی ہدایت کرتے ہوئے پائن سٹی سے متعلق تفصیلات طلب کر لیں، کیس کی سماعت 15 اگست تک ملتوی کردی گئی ہے۔