40 سال کے طویل وقفے کے بعد ارشد ندیم نے پہلا اولمپک گولڈ میڈل پاکستان کے نام کردیا ہے، مردوں کے جیولن تھرو ایونٹ کے فائنل میں 92.97 میٹر دور نیزہ پھینک کر انہوں نے اولمپکس کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے، پیرس میں ان کی شاندار فتح سے قبل پاکستان نے اولمپکس میں کبھی کوئی انفرادی گولڈ میڈل نہیں جیتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ارشد ندیم کے لیے قومی اسمبلی میں ستائشی قرارداد پیش، اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازنے کی سفارش
پاکستان نے اس سے قبل صرف تین گولڈ میڈل جیتے ہیں جو تمام فیلڈ ہاکی کے مقابلوں میں اس کے نام رہے، پاکستان کی ہاکی ٹیم نے 1960، 1968 اور 1984 میں یہ ٹائٹل جیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ارشد ندیم کے لیے انفرادی حیثیت میں گولڈ میڈل جیتنا واقعی ایک حیران کن کارنامہ ہے کیونکہ اپنے مخالفین کے برعکس انہیں ٹریننگ کے لیےایک نیا جیولن خریدنے میں بھی دشواریوں کا سامنا تھا۔
گزشتہ شب اولمپکس میں اپنا پہلا گولڈ میڈل حاصل کرنے کے بعد پاکستانی پرچم لپیٹے 27 سالہ ارشد ندیم اپنے کوچ سے گلے مل کر زارو قطار روتے ہوئے دیکھے گئے، کوچ نے اس تاریخی کامیابی پر انہیں مبارکباد دی اور ان کا حوصلہ بڑھایا، تاہم ان کی وفور جذبات سے روتے ہوئے یہی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔
In a podcast, @Arshadnadeem76 said, "Mera aik hi sponsor hai, aur wo mera baap hai". In English,"I have just one sponsor, my father".
For a guy, who struggled even to collect money to buy a new javelin worth just 85k(1000$), have no one to support him, not just scoring 🥇in… pic.twitter.com/dEkmcACcop
— Aman Sharma (@amansharmadb) August 9, 2024
2022 کے کامن ویلتھ گیمز کے چیمپیئن ارشد ندیم نے، جو ٹوکیو اولمپکس میں پانچویں نمبر پر تھے اور گزشتہ سال کی بڈاپیسٹ ورلڈ چیمپیئن شپ میں سلور میڈل جیتے تھے، کہا کہ جیولن تھرو ایونٹ کے فائنل کا نتیجہ پاکستان کے لیے بہت اہم تھا کیونکہ انہوں نے اس کے لیے برسوں بہت محنت کی ہے۔
مزید پڑھیں: 92.97 میٹر کا ریکارڈ بنایا، اس سے بھی بہتر تھرو کرسکتا ہوں، ارشد ندیم
ارشد ندیم نے ٹوکیو اولمپکس کے گولڈ میڈلسٹ بھارتی ایتھلیٹ نیرج چوپڑا کے ساتھ اپنی دیرینہ مسابقت کے حوالے سے کہا کہ ان کی انتھک ٹریننگ اور محنت رنگ لائی ہے۔ ’کرکٹ کی طرح، جیولن میں بھی یہ رقابت تھی، پاکستان اور ہندوستان میں لوگ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔‘
’کرکٹ میچوں سمیت دیگر کھیلوں میں پیشہ ورانہ دشمنی کا عنصر موجود ہوتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان اس حوالے سے رقابت پائی جاتی ہے، لیکن دونوں ممالک کے نوجوانوں کے لیے یہ اچھی بات ہے کہ وہ ہمارا کھیل دیکھیں اور ہماری پیروی کریں، یہ دونوں ممالک کے لیے ایک مثبت بات ہے۔‘