مارچ 1960 میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کا پاکستان پہنچنا محض ایک دلچسپ اتفاق تھا۔ ان کا ارادہ بھارت جانے کا تھا لیکن ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے انہیں پاکستان آنا پڑا۔ کراچی پہنچ کر انہیں جذام کے مریضوں کی ایک کالونی دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ پاکستان ہی ان کا ٹھکانہ ہوگا اور انہیں جذام سے متاثر لوگوں کی مدد کرنی ہے۔
کچھ لوگ اپنی زندگی صرف اپنی ذات کے لیے نہیں جیتے، بلکہ ان کی زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت اور دوسروں کی مدد ہوتا ہے۔ ایسے افراد کی نیکیاں کسی مخصوص عقیدے یا مذہب تک محدود نہیں ہوتیں۔ وہ تمام حدود سے بالاتر ہوکر حقوق العباد پر یقین رکھتے ہیں۔ اپنی نیکیوں اور خدمات کے ذریعے وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھیں جو اپنی زندگی سے بھی بڑی ثابت ہوئیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد، جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا: مشرقی جرمنی (جو سوویت یونین کے زیرِ اثر تھا) اور مغربی جرمنی (جو مغربی طاقتوں کے زیرِ اثر تھا)۔ اس دور میں بہت سے لوگ مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی میں بہتر زندگی کی تلاش میں فرار ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی طرح رتھ فاؤ نے بھی ایک بہتر زندگی کا انتخاب کیا اور اپنی فیملی کے ساتھ مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی منتقل ہو گئیں۔
مغربی جرمنی میں قیام کے دوران رتھ فاؤ نے یہ محسوس کیا کہ وہ دوسروں کی زندگی کو بہتر بنانا چاہتی ہیں کیونکہ انہوں نے خود مشکل حالات کا سامنا کیا تھا۔ اس عزم کے ساتھ انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے وہ جرمنی سے فرانس گئیں جہاں انہوں نے طب کی تعلیم حاصل کی اور پھر ایک کیتھولک تنظیم کے ساتھ وابستہ ہو گئیں۔ اسی تنظیم کے ذریعے وہ پاکستان پہنچیں۔
یہ وہ دور تھا جب جذام سے متاثرہ لوگوں کو اچھوت سمجھ کر گھر سے نکال دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ جذام کے مریضوں کے لیے الگ کالونیاں بننی شروع ہو گئی تھیں، جو کہ گندگی سے بھری ہوتی تھیں اور جہاں علاج کے نام پر بس عارضی ڈسپنسریاں موجود تھی۔ مریضوں کی حالت یہ تھی کہ ان کے زخموں سے خون اور پیپ بہ رہی ہوتی تھی لیکن انہیں کوئی احساس نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس بیماری میں انسان کی جلد سن ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ نے جذام کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے پوری زندگی وقف کر دی۔ پاکستان میں آنے کے کچھ ہی وقت بعد انہوں نے کراچی میں جذام کے مریضوں کی کالونی میں واقع عارضی ڈسپنسری کو مستقل کلینک کی شکل دے دی۔ 1963 میں انہوں نے کراچی کے علاقے صدر میں ‘میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر’ کی بنیاد رکھی، جہاں جذام کے مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا تھا۔ 1968 میں ڈاکٹر رتھ نے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر ‘نیشنل لیپروسی کنٹرول پروگرام’ شروع کیا جس کے تحت ملک بھر میں کنٹرول سینٹرز قائم کیے گئے۔ اس پروگرام کی کامیابی کے نتیجے میں 1996 میں پاکستان کو جذام سے پاک ملک قرار دیا گیا۔
جب ڈاکٹر رتھ فاؤ سے پوچھا جاتا کہ پاکستان میں رہتے ہوئے انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تو وہ سادگی سے جواب دیتیں، “اماں کے لیے کیا مشکل”۔ اسی بنا پر لوگ انہیں مدر ٹریسا یا مدر جذام کہتے تھے، کیونکہ وہ اپنے مریضوں کو اپنے بچوں جیسا سمجھتی تھیں۔ کبھی وہ اس سوال کا جواب یوں دیتیں کہ، “مجھے کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ میں نے لوگوں کی خدمت کے لیے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں بھی کام کیا ہے، جہاں لوگ مجھے میرے کام کی وجہ سے جانتے ہیں اور کبھی کسی نے رکاوٹ نہیں ڈالی”۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف تھی، اور امید ہے کہ ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے اپنے مریضوں کو نہ صرف علاج فراہم کیا بلکہ انہیں محبت اور عزت دی، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ ان کے لیے کوئی بھی مشکل ان کے مقصد سے بڑی نہیں تھی، اور وہ ہمیشہ اپنی نیک نیتی اور عزم کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں۔ ان کی محبت اور خدمت کے جذبے نے ہمیں سکھایا ہے کہ حقیقی خدمت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، اور انسانیت کی خدمت ہی اصل عبادت ہے۔