سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے محض سفارشات یا ایڈوائزری نہیں ہوتے، عمل درآمد ہر صورت یقینی بنانا ہوگا۔
اس سال 26 اکتوبر کو چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی اپنے عہدے کی مدت پوری کر کے ریٹائر ہو جائیں گے۔ ممکنہ طور پر جسٹس منصور علی شاہ ان کے بعد چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے لیکن دونوں جج صاحبان کے گزشتہ دو دن کے ریمارکس اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ عدلیہ کے فیصلوں کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا، عدالت کو اپنے فیصلے منوانے میں مشکلات درپیش ہیں۔
نیشنل بینک آف پاکستان کے گیارہ ہزار پینشنرز کو پینشن کی عدم ادائیگی کے معاملہ پر آج جسٹس منصور علی شاہ نے جو حکم نامہ تحریر کیا اس میں لکھا ہے کہ ’
جمہوریت میں قانون کی حاکمیت صرف ایک اصول نہیں بلکہ وہ بنیاد ہے جس پر حکمرانی کی قانونی حیثیت ٹکی ہوتی ہے۔ شخصیات یا اداروں کے پاس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ سپریم کورٹ کو بطور ایپکس کورٹ کے آئینی تشریح، انصاف کی فراہمی اور آئین پر عمل درآمد کا اختیار حاصل ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے محض سفارشات یا ایڈوائزری نہیں ہوتے، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد ہر صورت یقینی بنانا ہو گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نظر انداز یا عمل درآمد میں تاخیر کرنا آئینی ڈھانچے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد عدالتی نظام پر عوامی اعتماد برقرار رکھنے کے مترادف ہے، عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنا کرٹسی نہیں بلکہ آئین کی منشا ہے‘۔
سیکرٹری کابینہ کی طلبی اور سرزنش
آج ہی کے روز مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں کمرشل سرگرمیوں اور وائلڈ لائف کے محکمے کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے سے متعلق جب مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اور سیکرٹری کابینہ عدالت کے بلانے پر بھی پیش نہ ہوئے تو چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور پھر اٹارنی جنرل کے آنے پر انہیں ہدایت کی کہ فوراً سیکرٹری کابینہ کو بلایا جائے، جس کے بعد سیکرٹری کابینہ عدالت میں پیش ہو گئے۔
سیکرٹری خزانہ کی غیر مشروط معافی
گزشتہ روز سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال جب عدالتی حکم کے باوجود عدالت حاضر نہیں ہوئے تو عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ تھوڑے وقفے کے بعد، جب وہ پیش ہوئے تو جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ عدالتی حکم تھا، کیوں پیش نہیں ہوئے؟ اس پر سیکرٹری خزانہ اور ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ تاریخ کے بارے میں تھوڑی غلط فہمی ہو گئی تھی، جس پر دونوں افسران کی معذرت قبول کی گئی۔
موسمیاتی تبدیلی کے سیکرٹری کے خلاف توہین عدالت کا عندیہ
2 اگست کو سپریم کورٹ نےموسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کیس میں 30 جولائی کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا جس میں سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ دے دیا۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ یکم جولائی کو 15 روز میں موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی فعال کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایک ماہ گزرنے کے باوجود موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی فعال کرنے پر پیشرفت نہ ہوسکی، مون سون سیزن شروع ہوچکا جس کے باعث عدالت جلد اتھارٹی فعال دیکھنا چاہتی ہے۔
پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کا معاملہ
پی ٹی آئی کو بطور ایک پارلیمانی جماعت تسلیم کئے جانے اور مخصوص نشستیں الاٹ کئے جانے سے متعلق سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو ایک فیصلہ جاری کیا جو اگر مگر کا شکار ہو چکا ہے۔ اس معاملے کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ابھی تک سپریم کورٹ نے تفصیلی اکثریتی فیصلہ جاری نہیں کیا جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وفاقی حکومت نے بظاہر اس فیصلے پر عمل درآمد روکنے کے لیے الیکشن ایکٹ میں ترمیم بھی کر دی ہے۔