پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے فیصلوں سے سپریم کورٹ کو تقسیم کردیا ہے، اخلاقی طور پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور ان کے دو رفقاء کو انتخابات التوا کیس سے دستبردار ہو کر اس معاملہ کو ختم کردینا چاہیے۔
وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں شرکت کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس ہمیں نصیحت کررہے ہیں کہ اس معاملہ کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے جبکہ اصل صورت حال کی طرف نہیں آرہے کہ جج صاحبان کی بینچ سے علیحدگی کے بعد از خود نوٹس کے خلاف فیصلہ آچکا ہے۔
CJP Bandial and his 3 supporting judges are biased and unacceptable, says @MoulanaOfficial pic.twitter.com/MpvaAHsCOz
— Murtaza Ali Shah (@MurtazaViews) April 1, 2023
انہوں نے کہا کہ از خود نوٹس کیس چار تین سے مسترد ہوچکا ہے لہٰذا اس پر اب دوبارہ سماعت کی کوئی حیثیت نہیں رہی،ہم اس بینچ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر عدم اعتماد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس بضد ہیں کہ اس کیس کو ہر قیمت پر سننا ہے تو ایسی صورت حال میں سیاست دان ،پارلیمنٹ اور عوام کو کیا رائے قائم کرنی چاہیے،ہماری نظر میں تو سپریم کورٹ اور موجودہ بینچ کا اس کیس میں واضح طور پر فریق کا کردار نظر آرہا ہے۔
الیکشن التواکیس کی سماعت کرنے والے بینچ پر ہمیں اعتماد نہیں
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی کے عام انتخابات کی تاریخ کے تعین سے متعلق از خود نوٹس جو زیر سماعت ہے اس میں پہلا بینچ 9 ممبران پر مشتمل تھا اور اب تین رکنی بینچ تک پہنچ چکا ہے اور ہمیں اس پر کوئی اعتماد نہیں ۔
فضل الرحمان نے کہا کہ عدالت عظمیٰ پاکستان کا انتہائی قابل قدر اور بلند رتبہ ادارہ ہے مگر چند ججز واضح طورپر عمران خان کو ریلیف دینا چاہتے ہیں اور ان کی پارٹی کے موقف کو جتوانا چاہتے ہیں،ایسی صورت میں سپریم کورٹ کو تقسیم کرنا گوارہ کیا ہے لیکن جس کو سپورٹ کر رہے اس سے دستبردار نہیں ہورہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر کوئی بات نہیں ہو گی کیوں کہ ایک مجرم کو 2018 میں دھاندلی کے ذریعے مسلط کیا گیا تھاجس کے بعد ہم نے 15 ملین مارچ کیے مگر آپ کو احساس نہیں ہوا،اس وقت از خود نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟
ان کا کہنا تھا کہ 25 جولائی 2018 کی دھاندلی کے دو مرکزی مجرم آج بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی نوٹس نہیں لیا جارہا۔
الیکشن کمیشن کے انتظامی اختیار پر کیسے قبضہ کیا جاسکتاہے
فضل الرحمان نے کہا کہ صوبوں میں یا پورے ملک میں انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، کس طرح آپ کسی ادارے کے انتظامی اختیار پر قبضہ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کہا جارہا ہے کہ آئین کا تقاضا ہے کہ 90 دن میں انتخابات کروائے جائیں، یہ آئین کا تقاضا اس وقت کیوں نہیں تھا جب یہ عدالت ایک آمر پرویز مشرف کو 3 سال میں الیکشن کرانے کی اجازت دے رہا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ملک میں مردم شماری ہورہی ہے، کچھ ماہ بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی اور نئی ووٹر لسٹ بنے گی،اس وقت اگر انتخابات ہوتے ہیں تو نیا ووٹر ووٹ کاسٹ نہیں کرسکے گا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سیاسی لحاظ سے ملک کو ایک رکھنے کے لیے 1947 سے ایک ہی دن الیکشن ہوتے ہیں اس لیے سپریم کورٹ کے ججز احتیاط سے کام لیں اور فریق بن کر کردار ادا نہ کیا جائے۔