راجستھان میں ’آل انڈیا مشاعرہ‘ اپنے عروج پر تھا جب صاحبِ صدر اور دنیائے اردو کے ممتاز اور ہر دلعزیز شاعر جناب راحت اندوری کو دعوت سُخن دی گئی۔ وہ حسبِ روایت مائیک پر آئے، مختصر تمہید کے بعد اپنے مخصوص انداز اور تیور کے ساتھ غزل سرا ہوئے:
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
غزل کے آخری شعر پر جہاں مجمع داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہا تھا، وہیں ’بی جے پی‘ کے ایک وزیر موصوف غصہ سے بے قابو ہو کر اپنے چمچوں سمیت اسٹیج پر آگئے اور راحت اندوری سے مائیک چھین لیا، مگر مجمع شاعر کے ساتھ تھا۔ پھر کیا تھا کہ پولیس نے بڑی مشکل سے وزیر صاحب کو پرستاروں سے بچایا۔ راحت اندوری کی عوامی مقبولیت کا یہ منظر سینکڑوں ادبی نقادوں پر بھاری ہے۔
راحت اندوری بڑے سے بڑے صاحبان اقتدار کی موجودگی میں بھی کسی طرح کے تکلف یا مصلحت سے کام نہیں لیتے تھے۔ سخت برہمی کا اظہار بھی راحت کو اپنی بات اپنے انداز میں کہنے سے باز نہیں رکھ سکا۔ راحت کی کمزوری تھی کہ وہ مشاعروں میں بر سر اقتدار شرکا کی موجودگی میں جذباتی ہو جاتے تھے اور اشعار کو عوامی جذبات کی ترجمانی سونپ دیتے، جو یقیناً صاحبِ مسند افراد کا جی جلاتے تھے:
’یہ سارے لوگ تو شامل تھے لوٹنے میں مجھے
سنا ہے اب مری امداد کرنا چاہتے ہیں‘
’ماں‘ فیم معروف شاعر منور رانا کہہ گئے ہیں کہ ’اگر زندگی کے مسائل، گھر کی ضروریات، احباب کی بیہودگی، رشتوں کا ٹوٹنا، دیہات کی ویران سہ پہریں، شہر کی کرفیو بھری راتیں، سیاسی انتشار، فرقہ پرستی کی گرم ہوا، اور مذہبی رہنماؤں کے منہ سے نکلنے والے نعروں کو مشاعرے کی شاعری کہا جاتا ہے تو میں ایسی شاعری کو سلام اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ شاعری کے لیے اور شاعر کے لیے۔‘
انڈین ایکسپریس نے 25 دسمبر 2019 کو راحت اندوری سے بات چیت کی تھی۔ راحت نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’میرے آس پاس جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر اگر میں نہ لکھوں، تو میرے اور نیرو کے درمیان کیا فرق رہ جائے گا؟ اگر میرے شہر اور ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور میں اپنی محبوبہ کی زلفوں کی شان میں قصیدے لکھ رہا ہوں، پھر یا تو میں اندھا ہوں یا بہرا ہوں۔‘
’اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے‘
راحت اندوری کا اصل نام راحت اللہ قریشی تھا۔ والد رفعت اللہ قریشی اور والدہ مقبول النسا بیگم اندور شہر میں ٹیکسٹائل مل مزدور تھے۔ راحت ان کی چوتھی اولاد تھے۔ ابتدائی تعلیم نوتن ہائیر سیکنڈری اسکول اندور سے مکمل کی۔ 1973 میں اسلامیہ کریمیا کالج اندور سے گریجوایشن اور 1975 میں برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال مدھیہ پردیش سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا۔
1985 میں بھوج یونیورسٹی مدھیہ پردیش سے ’اردو مشاعرہ‘ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اور نئی زندگی میں ملازمت کا آغاز اندور کے ایک کالج میں اردو ادب پڑھانے سے کیا۔ لیکن چند سطروں کا یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا۔
’اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں‘
گھر کی مالی حالت بے حال تھی۔ کم عمری میں ہی اسکول کے ساتھ ساتھ والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے مختلف کام شروع کر دیے تھے۔ سائن بورڈ بنانے کا کام شروع کیا، انہماک اور تندہی کا عالم یہ تھا کہ رمضان المبارک میں روزہ مصروفیت میں گزرجاتا تھا اور وقتِ افطار والدہ افطاری دکان پر پہنچاتیں۔
انہماک اور لگن کا نتیجہ تھا کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب اندور کی بڑی مارکیٹ میں ان کے بنائے ہوئے سائن بورڈ سڑک کے اطراف میں آویزاں دکھائی دیتے تھے۔ دکان داروں کو کئی کئی دن باری کا انتظار کرنا پڑتا لیکن وہ اپنا بورڈ کسی اور سے بنوانا گوارا نہ کرتے تھے۔ کرائے کی سائیکل چلاتے اور بطورِ اجرت سائیکلوں پر نمبر لکھ دیا کرتے تھے۔
’نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا‘
گھر والوں کو 1969 میں معلوم ہوا کہ راحت اللہ شاعری بھی کرتے ہیں۔ پہلا مشاعرہ والدہ صاحبہ کی سفارش پر ماموں نے پڑھوایا تھا کہ وہ انتظامی کمیٹی کے رکن تھے۔ راحت نے مشاعرے میں کلام پیش کیا تو کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ یار دوستوں نے ’ونس مور‘ کا شور مچایا تو انہیں ڈانٹ کر چپ کرا دیا گیا۔
’وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا‘
راحت اللہ نے شعر و شاعری کا آغاز 19 برس کی عمر میں کالج دور سے ہی کردیا تھا۔ راحت ابتدا میں راحت قیصری کے نام سے معروف تھے۔ اندور میں اردو کے معروف استاد اور شاعر قیصر اندوری کے شاگرد تھے، اسی نسبت سے راحت اندوری کہلائے اور دنیائے شعر و سُخن پر راج کیا۔
’میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کے فرہاد ہو گئے‘
1970 سے لیکر مرتے دم 11 اگست 2020 تک (آج ان کی چوتھی برسی ہے) راحت اندوری کی کفالت ’شعر وشاعری‘ نے کی۔ شہرت کی دیوی ایسی رام ہوئی کہ دنیا بھر میں مشاعروں کے لیے مدعو کیے گئے۔ عمومی خیال ہے کہ مشاعرے کا محبوب شاعر، کامیاب شاعر نہیں ہوتا لیکن راحت اندوری نے تمام عمومی اور تنقیدی خیالات کو اپنی شاعرانہ قوت سے رد کردیا۔ ہندوستان میں کوئی مشاعرہ راحت اندوری کے بنا مشاعرہ سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔
’تجھ سے ملنے کی تمنا بھی بہت ہے لیکن
آنے جانے میں کرایہ بھی بہت لگتا ہے‘
راحت اندوری کہتے تھے کہ ہندوستان کے اردو مخالف ماحول میں مشاعروں کی وجہ سے ہی اردو کا چراغ روشن ہے۔ جس طرح غزل گائیکی نے اردو کو قبول عام عطا کرنے میں اپنا حصہ ادا کیا، یہی کام مشاعروں نے بھی کیا ہے۔ پاکستان میں فارسی، عربی کا غلبہ ہے اور ہندوستان میں سنسکرت اور ہندی کے الفاظ ہیں۔ وہاں پنجابی، سندھی اور پشتو کے اثرات بھی ہیں۔ جبکہ ہندوستان میں تیلگو، مراٹھی اور گجراتی وغیرہ کے اثرات اردو میں دخیل ہیں۔
’تیری ہر بات محبت میں گوارا کرکے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کرکے
آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کرکے
آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے
چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کرکے
میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کرکے
منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پہ بلا لوں گا اشارہ کرکے‘
شعر و شاعری کا ایسا ذوق کہ ہزاروں اشعار ازبر تھے۔ خود کہا کرتے تھے کہ اختر شیرانی سے جی لگایا، ساحر سے محبت کی، مجاز کی پوجا کی اور مخدوم سے عقیدت رکھی۔ فیض احمد فیض سے بھی فیض یاب ہوئے، لیکن خدائے سخن غالب ہی تھے، انہیں جب بھی پڑھا نت نئے معانی سامنے آئے پھر کہیں جا کر کوچہ سخن میں کامیابی نے دستک دی۔
’مسجدوں کے صحن تک جانا بہت دشوار تھا
دیر سے نکلا تو میرے راستے میں دار تھا
اب محلے بھر کے دروازوں پے دستک ہے نصیب
اک زمانہ تھا کہ جب میں بھی بہت خوددار تھا‘
راحت اندوری نے 1994 میں فلم ’دلبر‘ میں ایک شاعر کا کردار بھی نبھایا۔ لگ بھگ 40 فلموں کے گیت لکھے۔ ان کے مقبول گیتوں میں ’خوددار‘ فلم کا گانا:
’تم سا کوئی پیارا، کوئی معصوم نہیں ہے‘
فلم ’گھاتک‘ کا گانا:
’کوئی جائے تو لے آئے، میری لاکھ دعائیں پائے‘۔ فلم ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘ اور ’عشق‘ فلم کے گیت بھی شامل ہیں۔
فنا نظامی کانپوری (مرزا نثار علی بیگ) راحت اندوری سے سینئر اور شاعروں کے شاعر تھے۔ ان کا یہ مشہور شعر زبانِ زد خاص و عام ہے:
’ترک تعلقات کو اِک لمحہ چاہیئے
لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا‘
فنا نظامی کانپوری کہتے ہیں کہ کانپور کے حکیم کالج میں مشاعرہ تھا جب وہ صدارت کی سولی پر لٹکے ہوئے تھے اور انہوں نے پہلی بار راحت اندوری کو سنا تھا۔ راحت مائیک پر آئے اور کہنے لگے کہ ’سر میں آپ کے معیار کی چیز پڑھوں گا تو سامعین مجھے ہوٹ کریں گے، پلیز مجھے دھندہ کرنے کی اجازت دیجئے۔
فنا نظامی کانپوری کہتے ہیں کہ ’میں سمجھا کہ سامعین اتنے بُودم بھی نہیں کہ ایسی ڈائیلاگ بازی کے بعد نو آموز شاعر کو ’دھندہ‘ کرنے دیتے، لیکن اس ظالم نے پڑھنا شروع کیا کہ:
’دھوپ اور چھاؤں کے مالک مرے بوڑھے سورج
میرے سائے کو مرے قد کے برابر کر دے‘
پھر کیا تھا کہ مشاعرہ بارود کے ڈھیر کی طرح اڑ گیا، سامعین میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ مشاعرے میں راحت اندوری کے علاوہ بھی کسی شاعر نے کلام پڑھا ہے۔
’میرے حجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو لے آؤ زمیں پر رکھ دو
اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو
میں نے جس طاق پہ کچھ ٹوٹے دیے رکھے ہیں
چاند تاروں کو بھی لے جا کے وہیں پر رکھ دو
ایسے ہی ایک مشاعرے میں کوئی نوجوان شاعر راحت اندوری کا انداز کاپی کرکے شعر سُنا رہا تھا، جب اس کا کلام، تمام ہوا تو فنا نظامی کانپوری نے جو صاحب صدر تھے، اس نوجوان کو مخاطب کرکے کہا کہ برخوردار محض انداز اپنا لینے سے راحت اندوری نہیں بنا جاسکتا، اس کے لیے منہ بھی کالا کروانا پڑتا ہے۔ (راحت اندوری کالی رنگت کے حامل تھے)۔
’ہم ایسے پھول کہاں روز روز کِھلتے ہیں!
سیہ گلاب بڑی مشکلوں سے ملتے ہیں‘
’ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا‘ والے جاوید اختر کہتے ہیں کہ راحت اندوری عہدِ جدید کے حبیب جالب ہیں۔ راحت اندوری کے پاس دنیا بھر کے اعزازات اور ایوارڈز موجود ہیں لیکن انہیں خون میں ملی مسلم وراثت اور حکومت مخالف بیانیے کی وجہ سے ہندوستان کے کسی بھی بڑے سرکاری اعزاز سے نہیں نوازا گیا۔
حوصلے زندگی کے دیکھتے ہیں
چلیے کچھ روز جی کے دیکھتے ہیں
نیند پچھلی صدی کی زخمی ہے
خواب اگلی صدی کے دیکھتے ہیں
دھوپ اتنی کراہتی کیوں ہے
چھاؤں کے زخم سی کے دیکھتے ہیں
ٹکٹکی باندھ لی ہے آنکھوں نے
راستے واپسی کے دیکھتے ہیں
پانیوں سے تو پیاس بجھتی نہیں
آئیے زہر پی کے دیکھتے ہیں
راحت اندوری کے دوست انور جلال پوری نے کہا تھا کہ ایک وقت تھا جب راحت کا نام مشاعرے میں نہیں ہوتا تھا تو اس مشاعرے کو ’آل انڈیا مشاعرہ‘ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ آج راحت ہمارے درمیان نہیں، ان کے جانے سے اردو دنیا میں ’خلا‘ پیدا ہو سکتا ہے یا نہیں؟ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اردو مشاعرے کی وہ رونق جو پہلے ہوا کرتی تھی، اب نہیں رہے گی اور اب کوئی مشاعرہ ’آل انڈیا مشاعرہ‘ نہیں ہوگا۔
’یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا !!
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا‘