سپریم کورٹ نےقومی اسمبلی کے 3 حلقوں سے لیگی امیدواروں کی کامیابی کیخلاف لاہورہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کردیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہےجس کے ارکان احترام کے مستحق ہیں، ہائیکورٹ کے کچھ ججز الیکشن کمیشن کے احترام سے انکاری ہیں، تمام ججز کو الیکشن کمیشن کا احترام کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ مخصوص نشستوں سے متعلق 12 جولائی کا فیصلہ واپس لے، الیکشن کمیشن نے نظرثانی درخواست دائر کردی
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو نظرانداز کیا، الیکشن ایکٹ کی سیکشن 95 پانچ کے مطابق ریٹرننگ افسر دوبارہ گنتی کروا سکتا ہے۔
ن لیگی رہنماؤں عبدالرحمن کانجو، اظہر قیوم ناہرا، ذوالفقار احمد نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جہاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اپیلوں پر محفوظ فیصلہ ایک کے مقابلے میں 2 کی اکثریت سے سنایا ہے، جسٹس عقیل عباسی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن نے الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل سپریم کورٹ میں چیلنج کردی
سپریم کورٹ کا ایک کے مقابلے میں 2 کی اکثریت سے سنائے گئے اس فیصلے میں ہائیکورٹ کے ججز کے لیے خصوصی حکم بھی دیا گیا ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہےجس کے ارکان احترام کے مستحق ہیں، ہائیکورٹ کے کچھ ججز الیکشن کمیشن کے احترام سے انکاری ہیں، تمام ججز کو الیکشن کمیشن کا احترام کرنا چاہیے۔
تینوں ن لیگی امیدواروں نے الیکشن کمیشن کو اپنے حلقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواست دی تھی، این اے 154 میں ن لیگ کے عبد الرحمن کانجو دوبارہ گنتی میں رانا فراز نون سے جیت گئے تھے، اظہر قیوم ناہرا این اے 81 میں دوبارہ گنتی میں رانا بلال اعجاز سے جبکہ ذوالفقار احمد این اے 81 میں احسان اللہ سے دوبارہ گنتی میں جیت گئے تھے، جس کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کی کامیابی کے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: نواز شریف سمیت ملک بھر سے کن امیدواروں کی کامیابی چیلنج ہو ئی؟
دوبارہ گنتی کے خلاف آزاد امیدواروں نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن دوبارہ گنتی کے احکامات جاری کرنے کا مجاز نہیں تھا، لاہور ہائیکورٹ کے اسی فیصلے کے خلاف ن لیگی امیدواروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کر دیا، جس کی رو سے این اے 154 سے عبدالرحمن کانجو، این اے 81 سے اظہر قیوم اور این اے 81 سے ذوالفقار احمد کی کامیابی کے نوٹیفکیشن بحال ہوگئے ہیں۔
مزید پڑھیں: پی پی 133 سے مسلم لیگ ن کے رانا عاطف کی کامیابی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار، لاہور ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ
پی پی 133 ننکانہ صاحب سے لگی امیدوار رانا محمد ارشد بھی کامیاب قرار
سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 133 ننکانہ صاحب رانا محمد ارشد کو بھی بحال کر دیا ہے، الیکشن کمیشن نے دوبارہ گنتی کے بعد 9 اپریل کو مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا ارشد کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے دوبارہ گنتی کے بعد سنی اتحاد کونسل کے امیدوار رانا عاطف کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کو کامیاب قرار دیا تھا، دوبارہ گنتی کے بعد مسلم لیگ ن کے امیدوار کو 2400 کی برتری حاصل ہوگئی تھی۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو اضافی ٹریبونل کی تشکیل سے روک دیا
تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا
این اے 154، 79 ،81 اور پی پی 133 میں دوبارہ گنتی سے متعلق کیس کا سپریم کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریرکردہ فیصلہ مجموعی طور پر 47 صفحات پر مشتمل ہے جس میں اختلافی فیصلہ کے 23 صفحات بھی شامل ہیں۔
c.p._1573_2024 by Asadullah on Scribd
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو نظرانداز کیا، الیکشن ایکٹ کی سیکشن 95 پانچ کے مطابق ریٹرننگ افسر دوبارہ گنتی کروا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: پنجاب میں الیکشن ٹریبونلز فعال بنانے کے لیے سلمان اکرم راجہ کا سپریم کورٹ سے رجوع
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق مجموعی طور پر کاسٹ کیے گئے ووٹوں میں 5 فیصد فرق پردوبارہ گنتی ہوسکتی ہے، قومی اسمبلی کی نشست کے لیے 8 ہزار اور صوبائی اسمبلی کے لیے 4 ہزار ووٹوں کے فرق پر دوبارہ گنتی ہوسکتی ہے۔
اکثریتی فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور ممبران احترام کے حقدار ہیں، بدقسمتی سے کچھ ججز اس پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے تضحیک آمیز ریمارکس دیتے ہیں، ہر آئینی ادارہ اور آئینی عہدے دار احترام کا مستحق ہے۔
مزید پڑھیں: الیکشن ٹربیونلز کا قیام : الیکشن کمیشن کی حکم امتناع کی استدعا مسترد، معاملہ 3 رکنی کمیٹی کے سپرد
فیصلے کے مطابق ادارے کی ساکھ میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب وہ احترام کے دائرہ فرائض سر انجام دے، یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تین حلقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواستیں 9 اور 10 فروری کو آگئی تھیں، 5 اگست 2023 کو الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے ذریعے ریٹرننگ افسر کو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا اختیار دیا جاچکا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے وقت یہ ترمیم موجود تھی، ہائیکورٹ نے سیکشن 95 کی ذیلی شق 5 کو مدنظر ہی نہیں رکھا۔