خاک سے وابستگی کا سلسلہ چلتا رہے

بدھ 14 اگست 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان 14 اگست کوآزاد ہوا یا 15 کو؟ ہمیں یوم آزادی کس دن منانا چاہیے؟ پاکستان کا نام کس نے تجویز کیا؟ کیا قومی ترانہ واقعی حفیظ جالندھری نے لکھا تھا یا کسی اور نے؟ اس میں فارسی کے الفاظ زیادہ کیوں ہیں؟ برصغیر کی تقسیم کیا کسی سازش کا نتیجہ تھی؟ اس میں اہم کردار کس کا تھا؟ ہندوستان کے کچھ مسلم علما اور سیاسی رہنماؤں نے قیام پاکستان کی مخالفت کیوں کی تھی؟ کیا ان کا مؤقف درست ثابت ہوا؟ اورکیا ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے؟ اس تقسیم کے نتائج کیا برآمد ہوئے؟

یہ اور اس طرح کے کئی دیگرسوالات جو تحقیق کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور ان پر تحقیق کے میدان میں خلوص نیت سے کام کرنے والوں کو مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور تاریخی حقائق کی درستی کی اشد ضرورت ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم بحیثیت قوم ماضی میں الجھ کر رہ جائیں اور اپنا حال اور مستقبل تباہ کر لیں۔ دیگر اقوام بھی اپنی تاریخ درست کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن مذہب سے لے کر سیاست تک، ماضی کے تنازعات کو سر پر سوار کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔

ہم پہلے ہی کئی قسم کی تقسیم اورتنازعات کا شکار ہیں۔ مذہب، ذات، قبیلہ اور زبان کی بنیاد پر ہم نے تنازعات اور اختلافات کے ایسے ایسے جن پال رکھے ہیں کہ جنہیں بوتل میں بند بھی کیا جاتا ہے تو کسی وقتی مصلحت کے تحت یا مستقبل میں دوبارہ باہر نکال کر استعمال کرنے کے لیے۔ یہ سب عمل بار بار دہرایا جاتا ہے جو امن عامہ کو مستحکم بنیادوں پر کبھی بحال ہونے ہی نہیں دیتا۔

امن عامہ کو کسی بھی معاشرے میں ترقی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں مذہب، عقیدے یا رائے کو دوسرے پر مسلط نہیں کیا جاتا، اور یہ بات صرف مذہب تک محدود نہیں بلکہ کسی بھی معاملے میں اور کسی بھی مقام پر، کسی بھی ادارے میں، حتیٰ کہ گھر کے اندر اور رشتوں کے درمیان بھی اپنے سے کمزور یا چھوٹے پر اپنی سوچ اور رائے مسلط کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں سب الٹ ہے۔ ہم ہر معاملے میں اپنی سوچ دوسروں کے دماغوں میں بھرنے اور اپنے الفاظ دوسرے کے منہ میں ٹھونسنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ قیام پاکستان کے باب میں ہمارے ہاں زیر بحث آنے والے سوالات کے متعلق بھی یہی معاملہ ہے۔

ہم جتنی جلد یہ حقیقت تسلیم کر لیں گے کہ پاکستان اب وجود میں آ چکا ہے اور رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے نقشے پرابھرنے والی چند بڑی مملکتوں میں سے ایک ہے، ہمارے لیے اتنا بہتر ہو گا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمیں اور ہماری نسلوں نے یہاں رہنا ہے۔ اس کے بعد ہی ہم کسی تعمیری سوچ کو اپنانے کے قابل ہو سکیں گے۔

جس طرح اقوام عالم میں امن و امان بحال رکھنے اور انسانوں کو بے ضرر بنانے کے حوالے سے اس یقین کو بنیادی تسلیم کیا جاتا ہے کہ دنیا کو جنت بنانا ضروری ہے اور اس غرض سے دنیا کو اہم اور اپنا سمجھا جانا شرط ہے، بعینہٖ پاکستانی معاشرے کے سدھار اورترقی کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس ملک کو حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ اس کے بعد آپ کی مرضی ہے، جو بھی آپ کا نظریہ یا عقیدہ ہے اس پر عمل کریں اورخوشی سے کریں۔ ہماری قومی وحدت کی بنیادیں پہلے ہی بھونچال کی زد میں رہتی ہیں ایسے میں اگر ہم اپنی بنیاد کو ہی زیر بحث لاتے رہیں گے تو ترقی کا خواب خواب ہی رہے گا۔

جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
(اقبال ساجد)

ہمارے تنازعات جہاں ہمیں منفی رویوں کا حامل بناتے ہیں وہیں ہمارا وقت اور توانائی بھی ضائع کرتے ہیں۔ کوئی بھی تنازعہ ہو اس میں آپ کا تعمیر پر خرچ ہونے والا وقت ضائع ہوتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمیں اس کام پر کیوں لگا دیا گیا ہے۔ ہمیں مثبت اور تعمیری سوچ کی طرف لوٹنا ہو گا اور یہ کام کچھ ایسا مشکل نہیں۔ امید کی کرن ابھی موجود ہے۔ یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ ایک نوجوان ارشد ندیم کی فقط ایک کامیابی سے قوم سب سوالات اور اختلافات بھلا کر جشن منانے میں مگن ہو گئی۔

جڑ سے پتوں تک نمی کا سلسلہ چلتا رہے
اس شجر میں زندگی کا سلسلہ چلتا رہے

اے خدا حاسد اندھیروں سے ہمیں محفوظ رکھ
حشر تک یہ روشنی کا سلسلہ چلتا رہے

اس لیے دہراتے ہیں ہم رفتگاں کی آرزو
خاک سے وابستگی کا سلسلہ چلتا رہے
(سجاد بلوچ)

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp