ذوالفقار علی بھٹو کا مزار جس کا فائنل ڈیزائن محترمہ بے نظیر بھٹو نے منظور کیا

منگل 4 اپریل 2023
author image

عقیل عباس جعفری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

4 اپریل 1979ء پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن، جب ایک فوجی حکمران نے اپنی وردی کا سہارا لیتے ہوئے ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک فوجداری مقدمے میں عدلیہ کی مدد سے تختہ دار پر چڑھا دیا۔ بھٹو کو جیل مینوئل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں 2 بج کر 4 منٹ پر راولپنڈی جیل میں پھانسی دی گئی۔

بھٹو نے جان دے دی مگر ایک آمر مطلق کے آگے سر جھکانا پسند نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے کچھ دیر بعد ایک فوجی سی 130 طیارہ ان کی لاش لے کر راولپنڈی سے جیکب آباد روانہ ہوا، جہاں سے اسے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی گاؤں گڑھی خدا بخش لے جایا گیا۔ ان کے قریبی عزیزوں کو میت کی آمد کے بارے میں پہلے ہی مطلع کردیا گیا تھا اور فوجی جوانوں نے گڑھی خدا بخش کے قبرستان سے ملحق مسجد کے احاطے میں ان کی قبر پہلے ہی تیار کر رکھی تھی۔

تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ گڑھی خدا بخش کا نام ذوالفقار علی بھٹو کے پر دادا خدا بخش بھٹو کے نام پر گڑھی خدا بخش پڑا تھا۔ انہوں نے نہ صرف اس گاؤں کو آباد کیا بلکہ اس قبرستان کے ساتھ ایک چھوٹی مگر خاصی خوبصورت مسجد بھی تعمیر کروائی جہاں پانچوں وقت، جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ گاؤں میں وفات پانے والے افراد کی نمازِ جنازہ بھی پڑھائی جاتی تھی۔ خدا بخش بھٹو نے انتقال سے قبل وصیت کی تھی کہ انہیں بھی قبرستان سے ملحق اسی مسجد کے احاطے میں سپرد خاک کیا جائے۔ خدا بخش بھٹو کے فرزند غلام مرتضیٰ خان بھٹو نے اپنے والد کی یہ خواہش پوری کی اور اس مسجد کے احاطے میں نہ صرف خدا بخش بھٹو پیوند خاک ہوئے بلکہ خود غلام مرتضیٰ خاں بھٹو، ان کے دونوں فرزند شاہنواز خان بھٹو اور علی گوہر خان بھٹو اور شاہنواز خان بھٹو کی اہلیہ اور ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ محترمہ لیڈی خورشید بیگم بھی پیوند خاک ہوئیں۔

4 اپریل 1979ء کو صبح 8 بج کر 10 منٹ پر بھٹو کی میت گڑھی خدا بخش پہنچی جہاں ان کی لاش کو آخری دیدار کے لیے قبرستان سے ملحق اسی مسجد میں رکھ دیا گیا۔ لاش کو مذہبی تقاضوں کے مطابق پہلے ہی غسل دے کر کفنایا جاچکا تھا۔ بھٹو کی پہلی بیگم شیریں امیر بیگم نے پیغام بھجوایا کہ وہ اپنے گھر میں اپنے شوہر کا آخری دیدار کرنا چاہتی ہیں۔ فوجی حکام نے بادِل ناخواستہ اس کی اجازت دے دی اور خواتین کے زیارت کر لینے کے بعد لاش کو ایک چھوٹے سے جلوس کی شکل میں دوبارہ گڑھی خدا بخش کے قبرستان کی مسجد میں پہنچا دیا گیا۔

مسجد میں مولانا محمود احمد بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس نماز جنازہ میں تقریباً 300 افراد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کے بعد عالم اسلام کے عظیم رہنما، اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیئرمین، ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم اور 1973ء کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو سخت سیکیورٹی میں اپنے بزرگوں کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

اس کے بعد کوئی ساڑھے 9 برس تک ملک پر جنرل ضیا الحق مسلط رہے مگر وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے بعد بھی اس کی قبر سے خوفزدہ رہے۔ بھٹو کی قبر اس کے عاشقوں کے لیے مرکز عقیدت بن گئی۔ لوگ دُور دُور سے اس کی قبر کی زیارت اور فاتحہ خوانی کے لیے آنے لگے، مگر ملک کے مختلف حصوں سے آنے والے لوگوں کو بھٹو کی قبر پر جانے کی آسانی سے اجازت نہ تھی۔ گاؤں سے باہر رائس کینال پر پولیس نے ایک باقاعدہ چیک پوسٹ قائم کی تھی جہاں ان افراد کو روک لیا جاتا، ان سے سوال و جواب کیا جاتا اور یہ پڑتال خاص طور پر کی جاتی کہ کہیں کسی زائر کے پاس کوئی کیمرہ تو نہیں۔ بھٹو مرنے کے بعد بھی فوجی حکمرانوں کے حواس پر مسلط تھے اور خود بھٹو کے بقول اب وہ قبر سے اپنے عوام پر حکمرانی کررہے تھے۔ وقت کا دھارا بدلا اور پھر بھٹو کے شفق سے ابھرتی کرن محترمہ بے نظیر بھٹو کو عوام نے اپنا سربراہ منتخب کرلیا۔ اب ذوالفقار علی بھٹو کی قبر پر آنے جانے کی کوئی قدغن نہ رہی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے برسرِ اقتدار آنے کے کچھ عرصے بعد اپنے عظیم والد کی قبر کو باقاعدہ ایک مزار کی شکل دینے کی کوشش شروع کی۔ ابتدا میں بھٹو اور ان کے بزرگوں کی قبر پر ایک چھت تعمیر کردی گئی، جس سے یہ قبریں موسم کی شدتوں سے بڑی حد تک محفوظ ہوگئیں۔

2000ء کے بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹو دبئی میں اپنی طویل جلاوطنی کاٹ رہی تھیں تو انہیں اپنے والد، بھائیوں اور بزرگوں کی قبروں پر باقاعدہ مقبرہ تعمیر کروانے کی خواہش ہوئی۔ 2003ء میں انہوں نے اس مزار کی ڈیزائننگ کے لیے مختلف آرکیٹیکٹ سے ڈیزائن طلب کیے۔ اس مقابلے میں ابتدائی طور پر 11 آرکیٹیکٹس کو بھٹو کے مزار کا ڈیزائن بنانے کے لیے منتخب کیا گیا۔ ان تمام آرکیٹیکٹس کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی جانب سے بھٹو کی قبر پر لے جایا گیا جہاں انہوں نے سائٹ کا جائزہ لیا اور تصاویر کھینچیں۔ تمام آرکیٹیکٹس نے اپنے اپنے ڈیزائن محترمہ بے نظیر بھٹو کو روانہ کیے جہاں 7 جون 2003ء کو محترمہ نے کراچی کے معروف آرکیٹیکٹ وقار اکبر رضوی کے ڈیزائن کو پسند کرتے ہوئے انہیں اس پروجیکٹ کے لیے منتخب کرلیا۔

 

مزار کا اندرونی منظر

جناب وقار اکبر رضوی نے ہمیں بتایا کہ ’بات یہ ہے کہ میرے علم میں تھا کہ اس مقابلے میں نہ صرف پاکستان بلکہ کئی غیر ملکی آرکیٹکٹ بھی حصہ لے رہے ہیں۔ اس بات کا احساس سبھی کو رہا ہوگا لہٰذا میں نے بھی اس احساس کے ساتھ اپنا ڈیزائن پیش کیا۔ میں نے اپنے مجوزہ ڈیزائن کی بنیاد سندھ دھرتی اور اس کی اسلامی تاریخ کی اساس پر رکھی، جس کے سبب سے علاقائی سوچ کے ساتھ آفاقی تصور ڈیزائن کے لیے بنیاد بن گیا۔ لہٰذا مقبرے کا ڈیزائن انہی خیالات کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آیا۔ اس بات کے ساتھ ساتھ اس ڈیزائن مقابلے میں کچھ جذباتی معاملہ بھی تھا کیونکہ بھٹو شہید اسی وقت میرے آئیڈیل بن گئے تھے جب میں نے ڈان میں بھٹو صاحب کا ایک انٹرویو پڑھا تھا کہ وہ آرکیٹیکٹ بننا چاہتے تھے مگر وہ قانون دان بن گئے۔ یہ انٹرویو میرے خیال میں 1973ء کے لگ بھگ شائع ہوا تھا۔ یہ بھٹو صاحب کے عروج کا زمانہ تھا۔ میں آرکیٹیکچر کے تعلیمی دور میں تھا تو اتنے عظیم شخص کی آرکیٹیکٹ بننے کی خواہش جان کر میں اس پروفیشن کو اپنانے پر مزید خوش ہوا۔ لہٰذا ڈیزائن مقابلے میں یہ جذبہ بھی کارفرما تھا کہ میں ایسی ہستی کے مقبرے کا ڈیزائن بنارہا ہوں جسے خود یہ پروفیشن بہت پسند تھا۔ بات طویل ہوگئی مگر میں نے اپنی کیفیت بتانی چاہی سو آپ کو بتادی۔ میرے لیے یہ اعزاز ہے کہ میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور اب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقبرے کا آرکیٹیکٹ ہوں‘۔

 

معروف آرکیٹیکٹ وقار اکبر رضوی

انہوں نے مزید بتایا کہ ’مقابلے میں شریک ہونے والے تمام آرکیٹیکٹس نے اپنے مجوزہ ڈیزائن محترمہ کے پاس دبئی پہنچا دیے۔ بعدازاں مجھے اطلاع ملی کہ محترمہ نے میرا یعنی آرکیٹیکٹس M/s WAQAR AKBAR ASSOCIATES کا ڈیزائن پسند فرمایا ہے۔ بعد ازاں مزار کا مکمل ڈیزائن اور مزار کے احاطے کا ڈیزائن میں نے دبئی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو پیش کیا جس کو انہوں نے بہت سراہا۔ اسی کی بنیاد پر تفصیلی ڈیزائن اور ڈرائنگز تیار کی گئیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب ابتدائی ڈیزائن مقابلے کے لیے آرکیٹکٹس پریکوالیفائی (Perqualify) کیے گئے تھے تو ان کو سائٹ دکھانے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ میں بھی بھٹو صاحب کے آبائی قبرستان جہاں وہ مدفون تھے، وہاں گیا۔ سائٹ کا جائزہ لیا، تصویریں کھینچیں، میرے ساتھ مجھے پک اینڈ ڈراپ دینے سائٹ دکھانے والے افراد موجود تھے۔ انہوں نے واپسی پر موئن جو داڑو ایئر پورٹ پر پہنچ کر بتایا کہ فلائٹ ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ ہے لہٰذا موئن جو داڑو کے ہوٹل میں چائے پینے کے لیے بیٹھ گیا۔ میرا ذہن مزار کی سائٹ دیکھنے کے بعد مسلسل چل رہا تھا کہ مزار ایسا ہو ویسا ہو۔ میں نے ایک فولس کیپ پیپر لیا اور اس پر اسکیچ بنانا شروع کردیا۔ تقریباً 30 سے 35 منٹ میں مزار کا ایک خاکہ تیار تھا۔ جو لوگ میرے ساتھ تھے دیکھ کر بہت تعجب میں پڑ گئے اور کہنے لگے سائیں بس یہی بنا دو اور وہ اسکیچ مجھ سے لینے پر مُصر ہوئے جو میں نے دے بھی دیا۔ بعدازاں میں نے من و عن وہی ڈیزائن مقابلے میں پیش کیا اور وہی ڈیزائن فائنل ہوا۔ کوئی بنیادی تبدیلی کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ دوسری بات جس نے مجھے سکون دیا وہ یہ کہ محترمہ جب عرصے بعد پاکستان آئیں اور جب انہیں گڑھی خدا بخش جاتے ہوئے دور سے مزار نظر آیا تو اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور گاڑی رکوا کر اتر گئیں اور کہنے لگیں کہ یہ مقبرہ میری امید سے بھی اچھا بنا ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ جس جگہ بی بی نے اتر کر مقبرہ دیکھا وہ وہی جگہ تھی جہاں میں مقبرے کی طرف جاتے ہوئے گاڑی رکواتا اور مقبرے کے فوٹو کھینچتا۔ بی بی لہک کے ساتھ مقبرے کی طرف بڑھیں اور پھر پورے مقبرے کا کام دیکھا اور ر چیز کو بہت سراہا۔ میرے لیے یہ بات بے حد اطمینان کن ہے کہ سب کچھ بی بی کو پسند آگیا۔ مگر ساتھ ہی اس بات کا بھی افسوس رہ گیا کہ بی بی شہید ہوگئیں اور جو مزار انہوں نے اپنی زندگی میں بنوایا تھا اس کو خود انہوں نے اس طرح اپنایا کہ اس کا حصہ بن گئیں۔ بی بی شہید بھٹو صاحب کے برابر دفن ہیں اس طرح اس مقبرے کو اب ’شہید بھٹوز‘ کا مزار کہا جاسکتا ہے‘۔

 

مزار کا تیار کردہ اسکیچ

وقار اکبر زیدی نے مزید بتایا کہ ’ڈیزائن کی تفصیلات ساری کی ساری بنیادی خیال پر مبنی ہیں۔ مگر جب ہم نے کام شروع کیا تو اس وقت Site کی موجودہ صورتحال کا مکمل سروے کیا۔ Existing Conditions کے تحت مکمل As Builts ڈرائنگز بنوائیں۔ پرانے ریکارڈ اور As Built ڈرائنگ سے معلوم ہوا کہ قبرستان پر پڑی ہوئی چھت کی کیا صورتحال ہے۔ ہم گراؤنڈ فلور کے ڈھانچے کو رکھتے ہوئے بھٹو صاحب کے اصلی مقبرے کو بنانا چاہتے تھے تاکہ جو کچھ بھی گراؤنڈ پر بنیادی ڈھانچہ ہے استعمال ہوجائے جس کے لیے ہم کو کئی جگہوں سے اس کو Reinforce کرنا پڑا اور مزار کے مرکزی اسٹرکچر کو مزید نئے کالم دے کر اپنے ڈیزائن کے تحت ڈھالا۔

’آپ ڈیزائن کے خد و خال، تصاویر اور ڈرائنگ سے دیکھ سکتے ہیں اور اب تو مزار خود خطے کی Skyline پر نمایاں ہے جو ہر خاص و عام کے لیے مرکز نگاہ بن چکا ہے۔

’ڈیزائن کی کچھ تکنیکی تفصیلات یوں ہیں کہ گراؤنڈ فلور کورڈ اسپیس 65 ہزار اسکوائر فٹ ہے۔ مزار کا پوڈیم سطح زمین سے 20 فٹ اونچا ہے، فرنٹ 320 فٹ اور چوڑائی 195 فٹ ہے۔ اصل مزار جو اوپر ہے چوکور ہے جس کا سائز  150×150 فٹ ہے، جس کے چاروں کونوں پر کورڈ برآمدے ہیں، جس پر چھوٹے چھوٹے گنبدوں کی چھت ہے۔ سامنے سے دونوں اطراف میں زینے ہیں جو اصل قبور تک لے جاتے ہیں۔ مرکزی ہال 32 فٹ اونچا ہے جس کی چاروں سمت 4 دروازے ہیں۔ بی بی کی ہدایت کے مطابق اصل مزار کو آنے اور جانے والے دروازے مشرق اور مغرب کی سمت ہوں گے جو اسی طرح رکھے گئے ہیں۔ سامنے کے حصے سے 2 زینے پوڈیم کے فرش تک جاتے ہیں۔ مقبرہ 5 گنبدوں پر مشتمل ہے جس میں ایک مرکزی گنبد ہے، جس کا قطر 60 فٹ ہے۔ مقبرے کی کُل اونچائی 135 فٹ ہے۔ مقبرے کا بالائی حصہ مکمل سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے۔

’مقبرے کا بیرونی ڈیزائن مَیں نے محترمہ کو جب پیش کیا تو وہ دبئی میں تھیں اس وقت تک وہ پاکستان نہیں آسکی تھیں۔ انہوں نے خود ہی بیرونی ڈیزائن فائنل کیا تھا اور میٹنگ میں خود ایک اسکیچ اپنے ہاتھ سے بناکر سمجھایا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ بی بی کے ہاتھ سے بنا ہوا اصل خاکہ میرے پاس موجود ہے چنانچہ بی بی کی ہدایات پر میں نے ماسٹر پلان بنایا۔ آپ دیکھیں لاکھوں لوگ مخصوصی پر وہاں آتے ہیں بھٹو اور شہید بی بی کے لیے وہاں جمع ہوتے ہیں۔ اس عوامی اجتماع کے لیے کافی کوشش کی گئی ہے کہ لوگوں کو سہولت فراہم کی جائے جس کی وجہ سے اطراف کے علاقوں کو اور وہاں کے عوام کو بہت ساری سہولتیں حاصل ہوئی ہیں‘۔

جناب وقار اکبر رضوی نے مزید بتایا کہ ’میں اس مقبرہ کے کام کو شروع سے اب تک بہترین ماحول کا کام سمجھتا ہوں۔ یعنی متعلق ادارہ ’شہید بھٹو مزار کمیٹی‘ جو بی بی کی سرپرستی میں رہی ہے شروع سے آج تک مسلسل مقبرے کے ڈیزائن سے لے کر تعمیرات کے معاملات تک انہماک کے ساتھ ہر طرح سے مصروف رہی ہے اور کسی قسم کے غیر متعلق ماحول کو اس نے پیدا کیا اور نہ پیدا ہونے دیا، لہٰذا مزار کا ادارہ، کنسلٹنٹ، کنٹریکٹرز، سائٹ اسٹاف، آفس اسٹاف سب نے ایک ٹیم کی حیثیت سے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مزار کی تعمیر سے متعلق 2 ادوار بنتے ہیں ایک بی بی کی زندگی کا دور اور دوسرا ان کی شہادت کے بعد کا دور، جس میں مزار کمیٹی اسی طرح موجود رہی مگر سرپرستی کی ذمہ داریاں جناب آصف علی زرداری صاحب پر آگئیں۔ زرداری صاحب نے ابتدائی ملاقات میں ہی یہ کہہ دیا تھا کہ جو ڈیزائن بی بی شہید نے فائنل کیے ہیں انہی کو من و عن آگے لے کر چلا جائے۔ سو وہی سلسلہ آگے بڑھا اور مزار کمیٹی نے انہی خطوط پر قائم رہتے ہوئے اصل مزار کے کام کے ساتھ ساتھ مزار کے اطراف عوامی سہولیات اور عوام کے اجتماع کا پارک بھی بی بی کے ڈیزائن کے مطابق آگے بڑھایا‘۔

ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا مزار پاکستان ہی نہیں دنیا کے اہم مزارات میں سے ایک ہے۔ اس مزار کے آرکیٹیکچر سے تاریخ رقم ہوچکی ہے، نسلیں جس کو دیکھیں گی، پڑھیں گی اور لکھیں گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp