سینیئر وکیل اور پاکستان آرمی کی جیگ (جج ایڈووکیٹ جنرل) برانچ سے ریٹائرڈ، کرنل انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید پر لگنے والے الزامات سنگین نوعیت کے ہیں اور انہیں آرمی ایکٹ کی دفعہ 31 کے تحت سزائے موت بھی ہوسکتی ہے۔
وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے کرنل انعام نے کہا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف دونوں الزام بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ ایک الزام جس میں انہوں نے ایک شہری سے 400 تولے سونا اور نقدی ہتھیائی، اس میں آرمی ایکٹ کی سیکشن 40 کے تحت انہیں 5 سال کی سزا ہوسکتی ہے جبکہ آرمی کے کمانڈ اینڈ اسٹرکچر اور حکومتِ وقت کے خلاف اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بداعتمادی کی فضا پیدا کرنا اور حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے الزام میں انہیں سیکشن 31 کے تحت سزائے موت یا عمر قید ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت ٹرائل بہت جلد مکمل ہوتے ہیں اور میرے خیال سے 3 سے 5 ہفتے میں کارروائی مکمل ہوجانی چاہیے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کے تحت کارروائی ہوئی تو آرٹیکل 6 لگتا ہے
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف اگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کے تحت کارروائی کی جائے تو ان پر سنگین غداری یا آرٹیکل 6 کی کارروائی کا آغاز ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل فیض نے شوکت عزیز صدیقی صاحب کو جاکر دھمکی دی کہ یہ کرنا ہے اور بتایا کہ بینچ ہم بنوا رہے ہیں اور یہی لوگ بینچ بنوایا کرتے تھے۔ ہمارے ججوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر آپ ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں تو آپ کی عزت نہیں رہتی۔ اس کے علاوہ اگر اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنرل فیض حمید نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو مس گائیڈ کیا تو بھی ان کے خلاف آرٹیکل 6 یا سنگین غداری کی کارروائی ہوسکتی ہے۔
آرمی چیف نے بہت بڑا قدم اٹھایا ہے
12 اگست کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور سابق کور کمانڈر پشاور جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کارروائی کے آغاز کے بارے میں بات کرتے ہوئے کرنل انعام الرحیم نے کہا کہ اس پیشرفت کو پاکستان آرمی میں بہت مثبت انداز میں لیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ عسکری 14 کے جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں ریٹائرڈ اور سرونگ آرمی افسران نے اس کو خوش آئند قرار دیا ہے اور یہ آرمی چیف کی جانب سے بہت بڑا قدم اٹھایا گیا ہے۔ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ایک سویلین کی درخواست پر ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور سابق کور کمانڈر کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف سپریم کورٹ کی براہِ راست نشریات میں الزامات لگے اور تمام لوگوں نے دیکھا۔ اگر اس کے بعد بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی تو پھر تو یہ سارا مذاق تھا۔ چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ٹاپ سٹی مقدمے میں کہا کہ یہ کوئی عام انسانی حقوق کا معاملہ نہیں۔ انہوں نے ایک کارروائی کی تجویز وزارتِ دفاع کو بھجوا دی جس پر وزارتِ دفاع نے کام شروع کیا۔ جس کے نتیجے میں موجودہ کارروائی کا آغاز ہوا ہے۔
ریٹائرڈ فوجی افسران کا کورٹ مارشل کون سے قانون کے تحت ہوتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان آرمی ایکٹ ایک خصوصی دستاویز ہے جس کی سیکشن 92 کے تحت فوج سے ریٹائر ہونے والے افسران اگر کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث پائے جائیں تو 6 ماہ کے اندر ان کا ٹرائل ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر کسی آرمی افسر نے دورانِ ملازمت اپنے ادارے کو مالی نقصان پہنچایا یا کسی شخص کو انفرادی طور پر نقصان پہنچایا تو اس کی کوئی معیاد نہیں بلکہ ایسے معاملے میں جب بھی اس کے خلاف شکایت آئے گی، آرمی اس کے خلاف ایکشن لے گی۔
انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی دفعہ 40 کے تحت آرمی کے ملازم نے دورانِ سروس کوئی بھی جرم کیا ہو تو اس کے خلاف کسی بھی وقت شکایت درج کرائی جاسکتی ہے اور اس کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوسکتا ہے۔ دوسری سیکشن 31 کے تحت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اگر کوئی آرمی ملازم کسی ایسی سرگرمی میں ملوث ہوتا ہے جس سے وہ آرمی کے ادارے یا سویلین حکومت کے خلاف بداعتمادی کی فضا پیدا کرتا ہے، جیسا کہ جنرل فیض حمید کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ مختلف معاملات میں بہت متحرک تھے، تو آرمی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے۔
فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کارروائی کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے کرنل انعام الرحیم نے کہا کہ جیسے سویلین معاملات میں تحقیقاتی کمیٹی بن جاتی ہے، آرمی میں اس تحقیقاتی کمیٹی کو کورٹ آف انکوائری کہتے ہیں اور اگر کسی جنرل کا کیس ہو تو میجر جنرل کو اس کورٹ آف انکوائری کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔
یہ کورٹ آف انکوائری الزامات سے متعلق ساری تحقیقات کرتی ہے، سارے ثبوت اور شواہد جمع کرتی ہے اور پھر ان ثبوتوں کی بنیاد پر وہ سزا نہیں سنا سکتی ہے بلکہ سزا تجویز کرسکتی ہے۔
اس کے بعد انکوائری کی سطح پر جن لوگوں کے بیانات قلمبند کیے گئے ہوں ان کے بیانات دوبارہ سے قانونی طور پر حلف کے ساتھ قلمبند کئے جاتے ہیں جس کو سمری آف ایویڈنس کہتے ہیں۔ باقاعدہ ٹرائل شروع کیے جانے سے قبل ملزم کو سمری آف ایویڈنس اور چارج شیٹ دی جاتی ہے۔
اس کے بعد ملزم کا جب باقاعدہ ٹرائل شروع ہوتا ہے تو وہ اپنی مرضی کا وکیل ہائر کرسکتا ہے، جو 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 10 اے کے تحت حق دیا گیا ہے اور اس سے پہلے یہ نہیں تھا۔ ٹرائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ سنایا جاتا ہے۔
سزا ہونے کی صورت میں ملزم 40 دن کے اندر آرمی کورٹ آف اپیلز میں اپیل دائر کرسکتا ہے۔ آرمی کورٹ آف اپیلز کی سربراہی کوئی میجر جنرل یا لیفٹیننٹ جنرل کرتا ہے۔
کیا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت دی گئی سزا ہائیکورٹ میں چیلنج ہوسکتی ہے؟
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت دی گئی سزا کو ہائیکورٹ میں اس وقت تک چیلنج نہیں کیا جاسکتا جب تک اس میں 3 گراونڈز شامل نہ ہوں۔
1، اپیل کنندہ یہ کہے کہ اس عدالت کو مجھے سزا دینے کا اختیار نہیں تھا،
2، مجھے بدنیتی کے تحت سزا سنائی گئی،
3، جو سزا مجھے سنائی گئی عدالت کو یہ سزا سنانے کا اختیار نہیں تھا۔
اگر یہ 3 گراونڈز ہوں تو ملزم فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرسکتا ہے۔ اگر ہائیکورٹ میں یہ 3 گراونڈز ثابت نہ ہوسکے تو ہائیکورٹ درخواست مسترد کردیتی ہے۔
اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے
کرنل انعام الرحیم نے کہا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے۔ بطور ڈی جی آئی ایس آئی ایک آدمی دوسروں سے پیسے اور سونا چھینتا ہے، ایک خاندان کو ٹارچر کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں فیض حمید کے ساتھ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی معاونت بھی شامل تھی جنہوں نے مقدمے کی اِن چیمبر سماعت کی اور بعد میں انسانی حقوق کے تحت دائر ایک لاکھ درخواستوں کو تلف کروا کر چلے گئے جس کا انہیں اختیار ہی نہیں تھا۔
عدلیہ کو بھی اپنے جج صاحبان کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے
کرنل انعام الرحیم نے کہا کہ یہاں پر عدلیہ نے خود کو احتسابی عمل اور کارروائی سے استثنٰی دیا ہوا ہے۔ جب مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریفرنس آیا تو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کو بینچ میں ساتھ بٹھا کر کہا کہ میں نے ایک میسیج دیا ہے جبکہ مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کرپشن کے سنجیدہ نوعیت کے الزامات تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے سابق ججز عمر عطا بندیال، اعجاز الاحسن اور جسٹس منظور ملک کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز دائر کیے لیکن شنوائی نہیں ہوئی‘۔
اور پھر یہ کیا کارروائی ہوئی کہ ایک جج کے خلاف ریفرنس آتا ہے اور وہ استعفٰی دے کر چلا جاتا ہے، بعد میں لوٹی ہوئی دولت بھی اسی کی اور ساتھ میں پینشن اور دیگر فوائد بھی ملتے رہتے ہیں۔ یہ آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔ پورے ملک میں کرپشن کے خلاف ایک ہی قانون ہونا چاہیے۔