قومی سلامتی امور اور دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف کارروائی کے بعد مزید کئی ایسے کردار ہیں جو بتدریج سامنے آئیں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، جنرل فیض کی گرفتاری کے بعد سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے علاوہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف کارروائی کا امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے، اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ ثاقب نثار کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے جس میں ایسے تمام کردار درج ہیں جو ممکنہ طور پر ایک باقاعدہ نیٹ ورک کا حصہ ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل، 3 مزید فوجی افسران کو تحویل میں لے لیا گیا، آئی ایس پی آر
گزشتہ روز سندھ کے صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے ایک پریس کانفرنس میں ثاقب نثار کو عمران خان کا سہولت کار قرار دیا تھا۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو فوجی تحویل میں لیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر خبریں زیرگردش تھیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے، تاہم سابق چیف جسٹس ان خبروں کی تردید کرچکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر مبالغہ آرائی کی جارہی ہے، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے واضح کیا کہ وہ کچھ دنوں سے بیرون ملک ہیں اور وہ اپنے ذاتی کام کی وجہ سے ملک سے باہر گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے حوالے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے جو باتیں اس وقت سوشل میڈیا پر کی جارہی ہیں وہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں اور یہ تمام باتیں جو میرے ساتھ منسوب کی جارہی ہیں غلط ہیں۔
یہ سب کچھ نیٹ ورک کے بغیر ممکن نہیں، ماہر قومی سلامتی امور
دوسری جانب، ماہر قومی سلامتی امور سید محمد علی اور دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ وقار حسن نے خیال ظاہر کیا ہے کہ فیض حمید کے خلاف انکواری آخری مراحل میں ہے جس کے بعد مزید نام سامنے آئیں گے۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فیض حمید نے جو کچھ کیا یہ سب کچھ نیٹ ورک کے بغیر ممکن نہیں تھا، اب اس نیٹ ورک کو توڑا جارہا ہے۔
ماہر قومی سلامتی امور سید محمد علی کا کہنا تھا کہ 7 مئی کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف انکوائری اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس انکوائری کمیٹی نے جو شواہد اور ثبوت اکٹھے کیے، اس کی بنیاد پر جنرل فیض حمید کو گرفتار کیا گیا اور گزشتہ روز مزید 3 فوجی افسران کو تحویل میں لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو آرمی ایکٹ کی دفعہ 31 کے تحت کتنی سزا ہوسکتی ہے؟
واضح رہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو پاک فوج نے گزشتہ پیر کے روز اپنی تحویل میں لیتے ہوئے ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس ضمن میں اس روز آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ایک اعلامیہ میں بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے پاک فوج کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں کی گئی شکایات کی درستگی کا پتہ لگانے کے لیے ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری کا آغاز کیا گیا تھا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے جن کے ثابت ہونے کی بنیاد پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کا آغاز کردیا گیا ہے۔