پاکستان میں عوام کو گزشتہ چند ہفتوں کے دوران وقفے وقفے سے انٹرنیٹ بندش کا سامنا ہے۔ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی، سست رفتاری اور سوشل میڈیا ایپس کی بندش جہاں صارفین کے لیے کمیونیکیشن جیسے مسائل پیدا کر رہی ہے وہیں یہ بحران کاروباری افراد خصوصاً خواتین کے لیے بھی تشویش کا سبب بن رہا ہے۔
کاروباری خواتین کو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے مد نظر شدید مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے انہیں مالی نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں انٹرنیٹ کی بندش، کتنے لاکھ فری لانسرز متاثر ہوسکتے ہیں؟
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عفت عارف نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ 5 برس سے آن لائن قرآن اکیڈمی چلا رہی ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے قرآن پڑھانے والی 4 خواتین کو ملازمت پر رکھا ہوا ہے۔
عفت کہتی ہیں کہ سنہ 2018 کے آخر میں جب انہوں نے اس اکیڈمی کا آغاز کیا تو سب کچھ بہترین انداز میں چل رہا تھا اور اس وقت ان کے پاس تقریباً 12 قرآن ٹیوٹرز تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری یہ اکیڈمی بیرونی ممالک کے طلبا کو قرآن پاک پڑھانے کے ساتھ ساتھ قرآن کی تفسیر کی بھی تعلیم دیتی ہے لیکن پھر سنہ 2021 سے ہمارا کام متاثر ہونا شروع ہوگیا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 5 برسوں میں معلمات کی تعداد نصف سے بھی کم رہ چکی ہے جس کی وجہ ملک میں آئے روز انٹرنیٹ کی بندش اور سست رفتاری ہے۔
عفت کا کہنا تھا کہ آئے روز یہی حالات درپیش رہتے ہیں اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کلاسز نہیں ہو پاتیں اور ہر دوسرے روز چھٹی پر والدین ہمیں انتہائی غیر ذمے دار سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کلاسز باقائدگی سے نہیں ہوں گی تو ہمیں فیس بھی اسی طرح کم ملتی ہے جبکہ میں نے ٹیوٹرز کو ماہانہ تنخواہ پر رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے مجھے شدید مالی نقصان کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیے: انٹرنیٹ پر فائروال کی تنصیب، وزیر مملکت نے باقاعدہ تصدیق کردی
مریم مختار کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے اور وہ آن لائن برانڈڈ میک اپ کا کاروبار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کلائنٹ سے رابطہ ممکن نہیں رہتا اور اگر انٹرنیٹ آ بھی رہا ہو تو اس کی رفتار اس قدر سست ہوتی ہے کہ نہ تو سوشل میڈیا ایپس ٹھیک طرح سے چلتی ہیں اور نہ ہی ان پر تصاویر اپلوڈ ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’کوئی کلائنٹ کسی آرڈر کے لیے اگر میسج کر بھی دیتا ہے تو اسے تصاویر نہ بھیج سکنے کی صورت میں شدید خفت اٹھانی پڑتی ہے اور ایسا ہونے کی صورت میں آدھے کسٹمرز تو دوبارہ رابطہ ہی نہیں کرتے‘۔
مریم مختار کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے کاروبار کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا اور جس علاقے سے ان کا تعلق ہے وہاں خواتین ویسے بھی باہر جا کر نوکریاں نہیں کرسکتیں اور پھر موجودہ صورتحال میں تو گھر بیٹھے آن لائن کام کرنا بھی تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ جلد از جلد انٹرنیٹ سے منسلک مسائل کو حل کرے تاکہ لوگ اپنے روزگار کا حصول جاری رکھ سکیں۔
صائمہ رضوان کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ ایک ہوم شیف ہیں اور انہیں یہ کاروبار کرتے ہوئے تقریباً 5 برس ہوچکے ہیں۔
انہوں نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے کاروبار کو مزید بڑھنے میں انسٹاگرام نے سب سے زیادہ مدد کی ہے اور وہ روز کا مینیو انسٹاگرام اسٹوری پر لگاتی ہیں جہاں کسٹمرز کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور وہیں سے سب سے زیادہ آرڈرز موصول ہوتے ہیں لیکن جب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور انٹرنیٹ کی بندش یا پھر سست انٹرنیٹ ہوگا تو کون کاروبار کر سکے گا۔
مزید پڑھیں: مفت دستیاب وی پی این استعمال کرنے کے کیا نقصانات ہیں؟
انہوں نے کہا کہ اگر کسی طرح کسٹمرز سے رابطہ ہو بھی جائے تب بھی کھانے کی ڈیلیوری کے لیے آن لائن رائیڈر کو بلانا مشکل ہو جاتا ہے اور اس کے انتظار میں کھانا ہی ٹھنڈا ہو جاتا ہے جس کا کسٹمرز پر بہت برا تاثر پڑتا ہے۔
حرا کنول کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ آن لائن کپڑے فروخت کرتی ہیں۔ انہوں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چند ہفتے قبل انٹرنیٹ کی بندش تھی، پھر سوشل میڈیا ایپس پر پابندی لگی اور انٹرنیٹ کی سست رفتار کی وجہ سے آن لائن سیشنز کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں لائیو سیشنز کرتی ہوں جس کے ذریعے کپڑے فروخت کرتی ہوں اب چونکہ انٹرنیٹ پر نہ کوئی ویڈیو اپلوڈ ہو رہی ہے اور نہ ہی تصویر تو لائیو سیشن تو ممکن ہی نہیں رہا۔
یہ بھی پڑھیے: فائروال کی تنصیب اور انٹرنیٹ کی بندش کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ہفتے سے لائیو سیشن نہیں کر پائیں کیونکہ انٹرنیٹ ہوگا تو کسٹمرز بھی سیشن جوائن کریں گے اور وہ اپنا اسٹاک فروخت کر پائیں گی۔
حرا نے کہا کہ ملک کے معاشی حالات ویسے ہی بگڑے ہوئے ہیں اور جب ایسی صورت میں خواتین نے کسی طرح گھر بیٹھے کمانا شروع کیا بھی تھا تو اب یہ انٹرنیٹ کا بحران ان کے کاروبار کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے۔