سارے درخت کاٹ دو، یہ دہشت گردی میں اضافے کا باعث ہیں، لنڈی کوتل جرگے کا انوکھا فیصلہ

ہفتہ 17 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لنڈی کوتل میں دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سکیورٹی فورسز اور مقامی جرگے نے کیکر کے درخت کاٹنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد علاقے سے بڑی تعداد میں درختوں کی کٹائی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔

خیبر قومی جرگے نے حالیہ ٹارگٹ کلنک کے بڑھتے ہوئے واقعات کی تناظر میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ پورے خیبر میں کیکر اور مسکوائٹ کے درختوں کو کاٹا جائے گا تاکہ رات کی تاریکی میں ٹارگٹ کلر اور دہشت گرد نہ چھپ سکے۔

یہ بھی پڑھیں: بوڑھے درختوں کو گود لے کر انہیں دوبارہ زندگی دینے والا رضاکار

قومی جرگے نے باقاعدہ طور پراعلان کیا تھا کہ اپنی زمینوں سے ان درختوں کو کاٹا جائے تاکہ علاقہ صاف نظر آسکے، اس ضمن میں سیکورٹی فورسز اور پولیس نے بھی لاوٴڈ اسپیکر پر علاقہ مکینوں کو درخت کاٹنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

گزشتہ 3 ماہ میں تحصیل لنڈی کوتل میں 8 افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے جن میں 5 پولیس اہلکار، ایک صحافی اور 2 عام شہری شامل ہیں۔

یاد رہے کہ لنڈی کوتل میں جنگلی درختوں میں واحد کیکر اور مسکوائٹ کے درخت ہیں جو کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں اور انہی کی وجہ سے لنڈی کوتل سرسبز و شاداب ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک درخت پر 22 پھل، قدرت کا کرشمہ یا پیوندکاری کا شاہکار؟

قومی جرگے کی رہنمائی کرنے والے مراد حسین آفریدی نے وی نیوز کو بتایا کہ کیکر اور مسکوائٹ کے درختوں کے کاٹنے کا فیصلہ جرگے نے متفقہ طور پر کیا کیونکہ دہشت گرد اور نامعلوم مسلح افراد کو محفوظ پناہ گاہ انہی درختوں کی وجہ سے ہی حاصل ہیں۔

’ یہی درخت ہیں جو گرمی کا زور کم کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں، لیکن انہیں کاٹنا امرِ مجبوری ہے‘

مراد حسین آفریدی کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ اور بالخصوص گرمی کی شدت میں کمی ان درختوں کے باعث ہی ممکن ہوئی ہے، یہاں لنڈی کوتل میں پانی کی سطح دن بہ دن گرتی جارہی ہے، بارشیں کم ہوتی جارہی ہیں، سبزے کے نام پر لنڈی کوتل میں یہی درخت ہیں جو گرمی کا زور کم کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: درخت، پانی اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟

مراد کے بقول انہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا ادراک ہے لیکن ان جنگلی پودوں اور درختوں کو کاٹنا امرِ مجبوری ہے کیونکہ شرپسند ان کی اوٹ لے کر کاروائیاں کرتے ہیں جس میں ٹارگٹ کلنگ بھی شامل ہے، اس ضمن میں وہ دیگر پودوں کی شجر کاری کا بھی منصوبہ رکھتے ہیں ۔

مراد حسین آفریدی نے بتایا کہ عموماً لوگ کیکر اور مسکوائٹ کے پودوں کو ایندھن کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں لیکن انہیں یہ فکر ضرور ہے کہ بڑے پیمانے پر اور ایک ہی وقت پر کاٹنے کے عمل سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔

’درخت کا ماحول کے تحفظ میں بڑا کردار ہوتا ہے‘

اس حوالے سے ضلع خیبر کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر زاہد محسود کا کہنا تھا کہ انہیں بذات خود جرگے کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ قیام امن میں درختوں کے کاٹنے سے کوئی بھی یہ گارنٹی نہیں دے سکتا کہ ان سے امن قائم ہوجائے گا، درخت پھلدار ہوں یا جنگلی، ماحول کے تحفظ میں ان کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

’جرگے کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جہاں پاکستان ایک طرف مسائل کا شکار ہے وہاں کمیونٹی کی طرف سے ایسے فیصلے باعث تشویش ہیں، اب یہ لازم ہے کہ ہر کوئی سال میں 10 سے زائد پودے لگائے اور جنگلات کو پروان چڑھائے۔

زاہد محسود کے مطابق جرگے کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے، کم از کم اتنا تو ہو کہ اگر درخت کاٹے بنا قیامِ امن ممکن نہیں تو پھر صرف شاخ تراشی کا اعلان کیا جائے اور پورا درخت یا اس کا تنا نہیں کاٹنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ملکہِ کوہسار کے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی، بڑے پیمانے پر درخت جل کر خاکستر

زاہد محسود کا ماننا ہے کہ درخت کاٹنے کے بجائے سولر لائٹس لگانا زیادہ فائدہ مند تھا کیونکہ دہشت گرد اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر کاروائیاں کرتے ہیں اور ان دہشتگردوں شناخت بھی نہیں ہو پاتی۔

’درخت کاٹنے سے امن قائم نہیں ہوسکتا‘

تحصیل لنڈی کوتل کے چیئرمین شاہ خالد شینواری سے جب اس حوالے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پورا پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے لیکن کیکر کے درخت  گھنے اور خار دار ہونے کے باعث دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کام کررہے ہیں اور ان کی وجہ سے کچھ واقعات یہاں لنڈی کوتل کے علاقے مزرینہ اور سلطان خیل میں پیش آئے، لہذا متفقہ طور پر فیصلہ ہوا ہے کہ ان کو کاٹا جائے۔

شاہ خالد سمجھتے ہیں کہ درختوں کو کاٹنے کا فیصلہ سیکیورٹی فورسز اور پولیس کی خواہش تھی لیکن یہ اس مسئلے کا پائیدار حل نہیں ہے، درخت کاٹنے سے امن قائم نہیں ہوسکتا، لیکن اتنا ہے کہ دہشت گردی کو کچھ حد تک کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر کے جنگلات خطرے سے دو چار کیوں؟

انہوں نے کہ راستوں اور شاہراہوں سے کیکر کو کاٹا جائے لیکن اس طرح سے اس کی پوری نسل ختم نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ جنگلات، محکمہ زراعت اور دیگر ادارے متبادل کے طور پر یہاں ایسے پودے  لگایئں جو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بن سکیں۔ ان کے  بقول چائنا کیکر، غز، شوہ اور ایسے ہی دیگردرخت کیکر کے متبادل کے طور پر اگائے جا سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp