طالبان کے اقدامات نے افغانستان میں تعلیمی ترقی کا صفایا کر دیا

ہفتہ 17 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے بتایا ہےکہ افغانستان میں طالبان حکمرانوں کے اقدامات نے گزشتہ 2 دہائیوں میں تعلیم کے شعبے میں ہونے والی تیزرفتار پیش رفت کو ضائع کر دیا ہے، جس سے ایک پوری نسل کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان میں خواتین عملے پر پابندی کیخلاف اقوام متحدہ کا شدید ردعمل

اس وقت افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے لیے ثانوی اور خواتین کے لیے اعلیٰ درجے کی تعلیم کا حصول ممنوع ہے۔ 3 سال قبل طالبان کی حکومت آنے کے بعد عائد کی جانے والی پابندیوں کے باعث کم از کم 14 لاکھ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو گئی ہیں۔

25 لاکھ لڑکیاں گھروں میں بیٹھی ہیں

طالبان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے ہی تعلیم سے محروم لڑکیوں سمیت اس وقت ملک میں تقریباً 25 لاکھ لڑکیاں گھروں میں بیٹھی ہیں۔ یہ سکول جانے کی عمر میں لڑکیوں کی 80 فیصد تعداد ہے۔

طلبہ کی تعداد بھی کمی

یونیسکو نے بتایا ہےکہ 2021 کے بعد یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم طلبہ کی تعداد بھی کم ہو کر نصف رہ گئی ہے۔ نتیجتاً ملک کو ایسی نوکریوں کے لیے تربیت یافتہ نوجوانوں کی کمی کا سامنا ہو گا، جن میں اعلیٰ درجے کی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ اس کا نتیجہ ملک کے لیے ترقیاتی مسائل کی صورت میں برآمد ہو گا۔

پرائمری تعلیم پر اثرات

اگرچہ ملک میں 12 سال سے کم عمر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی نہیں ہے تاہم 2021 کے بعد پرائمری تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی تعداد میں بھی بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان جاکر کالعدم تنظیمیں چلانے والوں کی حقیقت سامنے آئی، سرفراز بنگلزئی

یونیسکو کے مطابق، 2022 میں 57 لاکھ لڑکیاں اور لڑکے پرائمری تعلیم حاصل کر رہے تھے جبکہ 2019 میں یہ تعداد 68 لاکھ تھی۔یہ کمی طالبان کی جانب سے لڑکوں کے اسکولوں میں خواتین اساتذہ کی تعیناتی پر عائد پابندی کا نتیجہ ہے جس سے اساتذہ کی کمی ہو گئی ہے۔

علاوہ ازیں، ملک کے مشکل سماجی معاشی ماحول میں والدین بھی اپنے بچوں کو سکول بھیجنے میں دلچسپی نہیں لے رہے۔

یونیسکو نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں بڑھتی ہوئی کمی کا نتیجہ بچہ مزدوری اور نوعمری کی شادیوں میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔

یونیسکو کے اقدامات

یونیسکو نے 2021 سے ملک کے 34 میں سے 20 صوبوں میں مقامی لوگوں کے تعاون سے امدادی پروگرام شروع کیے ہیں۔ اس سلسلے میں 780 خواتین سمیت 1,000 سے زیادہ سہولت کاروں کو 55 ہزار سے زیادہ بچوں کو تعلیم دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ ان بچوں میں لڑکیوں کی اکثریت ہے۔

فاصلاتی تعلیم

ادارہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے فاصلاتی تعلیم بھی مہیا کر رہا ہے۔ اس حوالے سے افغان ذرائع ابلاغ کے ایسے اداروں کو مالی مدد اور تربیت فراہم کی جا رہی ہے جو تعلیمی پروگرام تیار اور نشر کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

یونیسکو نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ ملک میں لڑکیوں اور خواتین کے حق تعلیم کی بحالی کا بھرپور عزم کرے کیونکہ کمرہ جماعت میں اساتذہ کے روبرو تعلیم ہی سیکھنے کا سب سے موثر ذریعہ ہوتا ہے۔

عالمی برادری سے مطالبہ

یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے کہا ہے کہ تعلیم کے حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی برادری افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم غیرمشروط طور پر بحال کرانے کے لیے متحرک کردار ادا کرے۔

ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے طرز حکمرانی کو وقت کے ساتھ نظرانداز کر دینا خطرناک ہو گا۔ انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے 36 غیرجانبدار ماہرین بھی گزشتہ روز جاری ہونے والے اپنے مشترکہ بیان میں یہی کچھ کہہ چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے مقرر کردہ ان ماہرین میں افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر خصوصی اطلاع کار رچرڈ بینیٹ بھی شامل ہیں۔

انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان خواتین اور لڑکیوں کو دانستہ طور پر محکوم رکھنے کی وسیع اور منظم کوشش کر رہے ہیں جو انسانیت کے خلاف جرم اور صنفی بنیاد پر ظلم کے مترادف ہے۔

خواتین دشمن اقدامات

ان ماہرین نے کہا ہے کہ گزشتہ 3 سال میں افغانستان کے لوگوں بالخصوص خواتین کو اپنے حقوق اور آزادیوں پر ہولناک اور شدید حملوں کا سامنا رہا۔ قانونی جواز اور معاشرے کے تمام طبقات کی نمائندگی سے محروم طالبان حکومت نے ہر طرح کی مخالفت کو کچلا، سول سوسائٹی اور میڈیا کو دبایا اور قانون، انصاف، عدم امتیاز اور مساوات کے اصولوں کی کھلی پامالی کا ارتکاب کیا ہے۔

طالبان خواتین اور لڑکیوں کو دانستہ طور پر محکوم رکھنے کی وسیع اور منظم کوشش کر رہے ہیں جو انسانیت کے خلاف جرم اور صنفی بنیاد پر ظلم کے مترادف ہے۔ یہ صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ افغان شہریوں اور بالخصوص خواتین کی جانب سے اسے صنفی عصبیت قرار دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لوگ ایسے ماحول کے حق دار ہیں جہاں ہر فرد کے حقوق، وقار اور انسانیت کا تحفظ اور احترام ہو۔ انہیں تحفظ، مدد اور یکجہتی فراہم کرنے میں مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp