کھاؤں کدھر کی چوٹ بچاؤں کدھر کی چوٹ

منگل 20 اگست 2024
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اچھی خبر یہ ہے کہ جو مالی سال ختم ہوا اس میں سمندر پار پاکستانیوں نے تیس ارب تین کروڑ ڈالر کا زرِ مبادلہ پاکستان بھیجا جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں لگ بھگ گیارہ فیصد زائد ہے۔ اتنا پیسہ پاکستان کی تمام صنعتی و زرعی برآمدات نے مل کے نہیں کمایا جتنا  ایک کروڑ سے زائد بیرونِ ملک پاکستانیوں نے کما کر دیا۔

لہذا یہ کہنے میں مجھے کوئی جھجھک نہیں  کہ آئی ایم ایف سے آٹھ ارب ڈالر کے ساڑھے تین سالہ پیکیج کے لیے ماری ماری ریاست کو اگر کوئی ستر پوشی میسر ہے تو وہ انہی پاکستانیوں کے طفیل ہے جو قانونی و غیر قانونی طریقے سے اپنے پیسے اور جان و مال کے بل پر باہر جاتے ہیں اور پھر تن و جان کا رشتہ قائم رکھنے کے خرچے کے علاوہ باقی رقم وطن میں اپنے عزیزوں کے لیے بھیج دیتے ہیں۔

مگر یہی پاکستانی اپنے وطن میں سرمایہ کاری کرنے یا نئے پروجیکٹ شروع کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔شاید انہیں  کوئی بھی طرم خان یہ ٹھوس یقین دہانی نہیں دلا پایا کہ حکومت بدلنے کے باوجود سرمایہ کاری کی طے شدہ پالیسی نہیں بدلے گی۔ اپنا منافع ملک میں رکھیے یا باہر لے جائیے ۔آپ کا یہی احسان کم نہیں کہ آپ کے منصوبوں کے طفیل بے روزگاروں کی فوج کچھ تو کم ہو سکے۔ آپ کا منصوبہ اگر قابلِ عمل ہوا تو ون ونڈو آپریشن کے ذریعے کم سے کم وقت میں اسے کلئیر کر دیا جائے گا اور ابتدائی تین یا پانچ برس آپ کو ٹیکس کی چھوٹ بھی حاصل رہے گی۔

ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔ بڑے بڑے اور امیر دوست ممالک  اور کاروباری اداروں کی خوشامد کرتے ہیں اور ان ہی کی شرائط پر سرمایہ کاری کی سہولتیں دینے پر رضامند ہو جاتے ہیں اور جب کچھ عرصے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہم تو استحصالانہ شرائط کے جال میں جکڑے گئے تو پھر انہی کی خوشامد کرتے ہیں کہ شرائط کی رسی کچھ تو ڈھیلی کردو۔ ان میں سے چند  رحم کھا کے تھوڑی بہت ڈھیل دے دیتے ہیں اور باقی فریق خبردار ہیں کہ اگر تم نے معاہدہ توڑا یا ردوبدل  کی کوشش کی تو ہم تمہیں بین الاقوامی عدالتوں اور ٹریبونلز میں گھسیٹیں گے اور پھر ایک کے دس وصولیں گے ۔

ہم یہ سب ذلت برداشت کرتے ہیں اور خون کے گھونٹ پیتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کا خون نچوڑنے میں لگ جاتے ہیں تاکہ بیرونی سرمایہ کار کے گالوں کی سرخی کم نہ ہونے پائے۔

مگر ہمیں وہ پاکستانی نظر نہیں آتے جو اپنے خون پسینے کی کمائی نہ صرف زرِ مبادلہ کی شکل میں بھیجتے ہیں بلکہ اپنے ہی ملک میں صنعت و زراعت، سروس سیکٹر اور آئی ٹی میں بھی پیسہ لگانے کو تیار ہیں۔ جتنی خوشامد ہم غیر پاکستانی سرمایہ کاروں کی کرتے ہیں اس سے آدھی خوشامد اور سہولتیں سمندر پار پاکستانیوں کے لیے مخصوص کر دیں تو دو چار برس بعد ہمیں ہر ٹام ڈک ہیری کی ٹھوڑی کو لجلجاتے ہوئے پکڑنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔

مگر ہمارا سرکاری رویہ تو یہ ہے کہ ’ تم آؤ گے تو  کیا لاؤ گے اور ہم آئیں گے تو کیا دو گے ‘۔

سرمایہ کاری کے لیے ضروری اعتمادی اقدامات تو رہے ایک طرف۔ ہم تو ان ہزاروں سمندر پار پاکستانیوں کے وہ پلاٹ بھی چھڑوانے سے قاصر ہیں جو انہوں نے مختلف ہاؤسنگ اسکیموں میں خریدے۔ ان میں سے کئی اسکیمیں غائب ہو گئیں،کئی دیوالیہ ہو گئیں اور کئی وعدے کے مطابق پورے پیسے لینے کے باجود پلاٹ ڈلیور نہ کر سکیں۔کوئی ایسا فعال ادارہ نہیں جو دور بیٹھوں کی داد رسی کے لیے وقف ہو۔کہنے کو ہمارے پاس اوورسیز پاکستانیوں کی فلاح و بہبود اور مفادات کے تحفظ کے لئے ایک لحیم شحیم وفاقی وزارت بھی موجود ہے۔

گزرے فروری میں ہی دفترِ خارجہ کے اہلکاروں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو آگاہ کیا کہ بیرونِ ملک جیلوں میں اس وقت تئیس ہزار سے زائد پاکستانی قید ہیں۔ان میں سے ساڑھے پندرہ ہزار سزائیں بھگت رہے ہیں اور لگ بھگ آٹھ ہزار اپنے مقدمات کا فیصلہ ہونے کے انتظار میں ہیں۔ ان میں سے پانچ ہزار دو سو بانوے اماراتی، سات سو چھ بھارتی، تین سو اڑتیس قطری، پانچ سو انیس عراقی، چار سو پچاس بحرینی، انسٹھ کویتی، تین سو آٹھ ترک، دو سو پچپن ملائیشین، اٹھاسی افغان، ایک سو ایرانی، چار سو چینی، آٹھ سو گیارہ یونانی، تین سو تیس برطانوی، تین سو تیس اطالوی اور چوالیس پاکستانی امریکی جیلوں میں ہیں۔

ان تمام ممالک میں ماشااللہ پاکستانی سفارت خانے اور قونصل خانے بھی فعال ہیں۔ مگر ان کی زیادہ تر توجہ پروٹوکول ڈیوٹی اور پوسٹنگ کا عرصہ آرام دہ ماحول اور مراعاتی حصار میں پورا کرنے کی جانب رہتی ہے۔ ایک تارکِ وطن پاکستانی ان کی جانب رجوع کرنے سے پہلے دس بار سوچتا ہے اور اگر کہیں اسے ٹکا سا جواب نہ ملے تو  اپنی کلائی دانتوں سے کاٹ کے تصدیق کرتا ہے کہ خواب تو نہیں دیکھ رہا۔

دفترِ خارجہ اور داخلہ کے بابوؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے گیارہ ممالک سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے موجود ہیں یعنی قیدی اپنی معیاد بیرونِ ملک کے بجائے کسی پاکستانی جیل میں پوری کرے گا۔ان معاہدوں کے باوجود بیرونِ ملک پاکستانی قیدیوں کی تعداد میں کمی ہو کے نہیں دے رہی۔ ویسے بھی وہ پاکستان کی کس جیل میں اپنی بقیہ قید کاٹیں گے جہاں پہلے ہی گنجائش سے تین گنا زائد قیدی بھرے پڑے ہیں۔

مگر اتنے قیدی آخر کیوں بیرونی جیلوں میں سڑ رہے ہیں؟ اس کا جواب بھی تین ہفتے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی کو مل گیا۔ متعلقہ وزارت کے سیکریٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ کچھ  مچھلیاں بیرونِ ملک روزگار کے معدودے چند میسر تالابوں کو بھی گندہ کر رہی ہیں۔مثلاً  آج کی دنیا میں ہنرمندوں کی مانگ ہے لیکن پاکستان سے اب بھی غیر ہنرمندوں کی ایک بڑی تعداد سہانے سپنے باندھے جا رہی ہے۔ جب انہیں مسترد کر دیا جاتا ہے تو ان میں سے کچھ جرائم کی جانب راغب ہو جاتے ہیں۔

مثلاً سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے مطابق امارات میں چھوٹے موٹے جرائم میں جتنے بھی غیر ملکی دھرے جاتے ہیں ان میں سے نصف پاکستانی ہیں۔ بھکاریوں کے منظم گروہ عراق میں زیارات کے ویزے پر بھیجے جاتے ہیں۔

مگر ان لوگوں کی اسکریننگ کون کرتا ہے۔ ایف آئی اے؟ امیگریشن؟ سرحدی محافظ؟ آخر کون؟

ہر سال انسانی اسمگلرز کی تفصیلات ایف آئی اے کی ریڈ بک میں شائع ہوتی ہیں۔ پھر کیا ہوتا ہے؟ یہ کاروبار کیسے جاری رہتا ہے؟ کیا  کوئی فرد تنِ تنہا اپنے بل بوتے پر ایسا نیٹ ورک چلا سکتا ہے جب تک کہ ادارہ جاتی ملی بھگت نہ ہو؟ ان نفازی اداروں میں احتساب اور جزا و سزا کا انتظام کیا ہے؟ اس نظام پر اگر شفاف انداز میں عمل ہوتا ہے تو پھر یہ لعنت سال بہ سال کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی کیوں جا رہی ہے؟

کیا یہ سب محض حسنِ انتظام سے روکا جا سکتا ہے یا پھر  مقامی سطح پر معاشی مواقع مسلسل کھولنے کی بھی ضرورت ہے؟ نئے معاشی مواقع تو خیر کیا کھلیں گے ہم نے تو ان لاکھوں لوگوں کا روزگار بھی ’ ویب مینیجمنٹ سسٹم اپ گریڈیشن‘  کے نام پر داؤ پر لگا دیا ہے جو اپنے بل پر موبائل ایپس کے ذریعے نہ صرف  روزی روٹی پیدا کر رہے ہیں بلکہ آؤٹ سورسنگ اور فری لانسنگ کا حصہ بن کر اپنے ہی ملک میں بیٹھے بیٹھے باہر سے ڈالر بھی کھینچ رہے ہیں۔

کھاؤں کدھر کی چوٹ بچاؤں کدھر کی چوٹ۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp