موسمیاتی تبدیلی: گلگت بلتستان میں سیلاب سے متاثرہ خواتین کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟

منگل 20 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

استور کے گاؤں کشنت سے تعلق رکھنے والی 40سالہ ثمینہ بطول اپنے 6بچوں کے ساتھ خوشی خوشی زندگی گزار رہی تھیں کہ 10اگست کی رات ان پر قیامت بن کر ٹوٹی، ان کی 22سالہ بیٹی اور 6سالہ بیٹا سیلاب کی نذر ہوگئے۔

ثمینہ بطول کا کہنا ہے کہ 10اگست کی رات کھانا کھانے کے بعد اپنے بچوں کو سلایا ہی تھا کہ گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہوگئی، اس وقت تقریباً رات کے 11بج چکے تھے جب بارش شروع ہوئی، تو اپنے شوہر کو جگایا کہ مال مویشیوں کے لیے چارا اٹھانا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ سوچ کر کہ چارا بارش کی وجہ سے گیلا نہ ہو تو اسے محفوظ جگہ پر رکھنے کے لیے مویشی خانے کی طرف گئے۔ بارش بھی تیز تھی اور گرج چمک کی وجہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی طوفان آنے والا ہے۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری، متعدد مکانات تباہ، فصلوں اور املاک کو شدید نقصان

ثمینہ نے بتایا کہ جیسے ہی گائے کا چارا اٹھا کر واپس آئے، ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی، ایسا لگ رہا تھا کہ زلزلہ آیا ہے۔ گاؤں والوں نے خبر دی کہ سیلاب آگیا ہے جس پر جلدی سے دوڑ کر اپنے بچوں کو اٹھایا اور محفوظ مقام پر لے گئے، گھر پر سوئے بیٹی اور بیٹے کو جگانے واپس گھر کے قریب پہنچے تو سیلاب نے ہمارا گھر تباہ کردیا اور میری 22 سالہ بیٹی اور 6 سالہ بیٹا سیلاب کی نذر ہوگئے۔

ثمینہ بطول نے کہا کہ پہلے تومجھے لگا شاید میرے بچے رشتہ دار کے گھر گئے ہیں مگر جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ گاؤں سارا ہی سیلاب سے نیست ونابود ہوگیا ہے۔ جہاں پر گھر تھے ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی بنجر زمین تھی اور ویران جگہ کی طرح نہ ہی گھر، نہ فصلیں، نہ درخت، سب سیلاب کی نذر ہوچکے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو یہ لگا کہ میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں، مگر حقیقت یہ تھی کہ میرے بچوں کو سیلاب بہا کرلے گیا ہے۔ میرا گھر بھی سیلاب کی زد میں آگیا اور گاؤں کا تو نقشہ ہی بدل گیا۔

یہ پڑھیں: گلگت بلتستان میں بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں، درجنوں مکانات و اراضی تباہ

یہ بتاتے ہوئے ثمینہ خاموش ہوگئی اور روتے ہوئے کہنے لگی کہ اس کے علاوہ کوئی چارا بھی نہیں تھا۔ کافی وقت رونے کے بعد بولی کہ شکر ہے ہماری جانیں بچ گئیں اور بچے بھی بچ گئے، بس 2 بچوں کو نہیں بچا سکے۔

ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی ثمینہ بطول اپنے رشتہ داروں سمیت تباہ شدہ گھروں کے ملبے کے اوپر تھی کہ شاید کچھ گھر کا ضروری سامان ملبے سے ملے تو اپنے لیے محفوظ کرسکے۔

استور سے تعلق رکھنے والے صحافی شمس الرحمٰن نے کہا کہ اس بار موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ضلع استور میں بہت زیادہ سیلاب سے تباہ کاریاں ہوئی ہیں۔ سیلاب رات کو آنے کی وجہ سے گاؤں والوں کو اپنے سامان اٹھانے کا بھی موقع نہیں ملا اور جانی نقصان بھی بہت ہوا ہے۔ متاثرین کھلے آسمان تلے ہیں اورعوامی نمائندوں نے اب تک علاقے کا دورہ بھی نہیں کیا۔

انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے ضلع استور کے گاؤں کشونت، رامکھا، مشکے، پکورہ میں تباہ کاریاں ہوئی ہیں۔ گاؤں کے گاؤں تباہ ہوگئے ہیں اور لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات، گلگت بلتستان میں سیلابی صورتحال کے باعث انتظامیہ کا انتباہ

شمس الرحمٰن نے بتایا کہ مشکے اور پکورہ میں زرعی اراضی متاثر ہوئی ہے جبکہ دوسرے گاؤں میں گھروں سمیت مویشی، اور (آلو کی کاشت والی) زرعی زمین سیلاب کی نذر ہوگئی ہے۔

کوثر بیگم کا تعلق بھی کشنت گاؤں سے ہے اور ان کا گھر بھی مکمل تباہ ہوگیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ شکر ہے اللہ نے جان بچا لی ہے مگر زندگی بھر کی جمع پونجی اور محنت سیلاب کی نذر ہوچکی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اللہ کے سوا کوئی ہمارا نہیں، اور نہ ہی کوئی ہماری مدد کے لیے آیا ہے۔ سیلاب کے بعد کسی نے ہماری مدد نہیں کی، کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہمارا گاؤں پورا تباہ ہوگیا ہے، دوسرے گاؤں کے لوگ ہمارے لیے چائے اور کھانا لاکر دیتے ہیں، کبھی بھوکے ہی بیٹھتے ہیں۔ حکومت نے چاول اور کچھ خرچہ دیا ہے مگر ہم اس کو کدھر پکائیں، گھر تو تباہ ہوگئے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ خواتین کے لیے تو باتھ روم کا بھی انتظام موجود نہیں ہے، باتھ روم کے لیے رات ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ ٹینٹ میں بچوں کو بٹھایا ہے مگر ہم کہاں جائیں سب برباد ہوچکا ہے۔ ووٹ لیتے وقت اتنے لوگ ہمارے گھر آتے تھے جب ہم متاثر ہوئے کوئی پوچھنے تک نہیں آیا۔

کشنت گاؤں کے رہائشی اظفر کا کہنا ہے کہ گاؤں ہمارا اس طرح تباہ ہوگیا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے یہاں کبھی کوئی آبادی ہی نہیں تھی، اب سارے علاقے سے سیلاب کے بعد بدبو اور طعفن پھیل رہا ہے یہاں سے تو گزرنا محال ہوگیا ہے۔

یہ پڑھیے: گلگت بلتستان: ننھے وی لاگر شیراز کا گاؤں سیلاب سے تباہ، سیاچن روڈ بلاک

انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد بچے اور عورتیں بیمار ہورہی ہیں مگر حکومت ایسے غائب ہے کہ نہ ان متاثرین کی داد رسی کے لیے کوئی آیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ ضلعی انتظامیہ جس طرح کام کررہی ہے یہ ان کے بس کی بات نہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ صرف پل اور روڈ کی بحالی میں لگے ہیں جبکہ گاؤں کے گاؤں سیلاب سے متاثر ہیں اور لوگ بے یارومدگار ہیں جن کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ علاقے کے مخیر حضرات بھی اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں مگر جب تک حکومت کچھ نہیں کرتی متاثرین کی بحالی ممکن نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp