لیاری کا نام سنتے ہی 2 چیزیں ذہن میں آتی ہیں ایک گینگ وار اور دوسری یہاں کے کھلاڑی اور ان میں بھرا ٹیلینٹ۔ عموماً تو ایسا ہوتا ہے کہ بڑے کام سے اور بچے اسکول سے واپس آکر آرام کرتے ہیں لیکن لیاری میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ یہاں عصر کے بعد زندگی کی رگوں میں نئی جان سرایت کرتی دکھائی دیتی ہے۔
لیاری کے اکثر بچے بڑے اور بوڑھے گھروں میں صرف اپنے کپڑے تبدیل کرنے جاتے ہیں جس کے بعد وہ سیدھا کھیل کے میدان میں پہنچ جاتے ہیں جہاں انہیں فٹبال اور باکسنگ کھیلنی ہوتی ہے اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک ان پر نیند غالب نہ آنے لگے۔
لیاری انٹرنیشنل فٹبال اسٹیڈیم
یہ ماحول دیکھنے کے لیے ہم نے رخ کیا لیاری کا اور کئی چھوٹے بڑے گراؤنڈز دیکھنے کے بعد ہم پہنچے لیاری انٹرنیشنل فٹبال اسٹیڈیم جو لیاری کے وسط میں ایک الگ دنیا ہے جہاں انٹرنیشنل اور نیشنل کھلاڑیوں کی سرپرستی میں بچے فٹبال سیکھتے ہیں۔
لیاری کے انٹرنیشنل کھلاڑی نوجوانوں کو مفت میں ٹرینگ دیتے ہیں
لیاری کے ہر فٹبال گراؤنڈ میں روزانہ درجنوں انٹرنیشنل کھلاڑی آپ کو نظر آئیں گے جنہوں نے یہ ذمہ داری لی ہوئی ہے کہ وہ بچوں کو مفت میں فٹبال کی تربیت فراہم کریں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: لیاری کا ککری گراؤنڈ عالمی معیار کے اسپورٹس کمپلیکس میں کیسے بدلا؟
جن تجربہ کار کھلاڑیوں نے وی نیوز سے بات کی ان میں ایک بات مشترک تھی کہ اگر حکومت توجہ دے تو لیاری کے نوجوان بھی گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کی طرح ملک کا نام روشن کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
ڈپارٹمینٹل اسپورٹس پر پابندی نے فٹبالروں کا مستقبل تباہ کردیا
بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنے والے جاوید حمزہ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کی قومی فٹبال ٹیم سے کھیل چکے ہیں لیکن موجودہ صورت حال یہ ہے کہ سنہ 2020 میں ڈیپارٹمینٹل اسپورٹس پر پابندی عائد ہوچکی ہے جس کے بعد انہیں عارضی طور پر بینک میں نوکری کرنی پڑ رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نوکری ملے نہ ملے لیاری میں فٹبال، سائیکلنگ، جمناسٹک اور باکسنگ کا کھیل ہوتا رہتا ہے اور یہ کھلاڑی اس امید پر ہیں کہ کبھی نہ کبھی ان پر بھی سرکار کی نظر کرم ہوسکتی ہے۔
ہم مفت میں ٹریننگ دے رہے ہیں
گراؤنڈ میں موجود ٹرینر عبدالعزیز نے وی نیوز کو بتایا کہ فٹبال ان کا شوق ہے اور اسی وجہ سے وہ مفت میں ان بچوں کو ٹریننگ دے رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا جانتی ہے کہ کھیلوں کے حوالے سے لیاری میں کتنا ٹیلنٹ موجود ہے۔
فٹبالر محمد جاوید جو کہ جاوید کارلوس کے نام سے مشہور ہیں آج کل بچوں کو ٹریننگ دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ پھر بات بہت دور تلک چلی جائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ملک میں فٹبال کی ٹیم 3 ماہ میں بنتی ہے، ایک ٹیم 50 کروڑ روپے میں جبکہ ایک 50 لاکھ روپے میں ٹور پر جا رہی ہے تو ایسے میں ہم باقی دنیا سے کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں۔
ہم بچوں کو قومی ٹیم میں شامل کرنے کی کوئی امید نہیں دلاسکتے
انٹرنیشنل فٹبال کھلاڑی اورنگ زیب کہتے ہیں کہ لیاری منی برازیل ہے اور فٹبال یہاں کے بچوں کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے لیکن انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم بچوں کو ٹرین تو کررہے ہیں پر ان کو امید نہیں دلا سکتے ہیں کہ وہ بھی کبھی آگے جائیں گے اور قومی ٹیم میں شامل ہوسکیں گے۔
یہ سب مزدور طبقے سے ہیں کب تک برداشت کریں گے؟
کوچ مراد علوی کا کہنا ہے کہ یہ سب کھلاڑی مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیپارٹمنٹس بند ہونے کے باعث مستقبل تاریک نظر آتا ہے، ہم اپنی کوشش کررہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کب تک سروائیو کر پائیں گے۔
زیرتربیت بچوں کا مستقبل کیا ہے؟
عمر واحدی سینیئر کوچ ہیں جن کے پاس چھوٹی عمر کے بچے آتے ہیں اور چند سال بعد وہ قومی سطح پر کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔
مزید پڑھیے: 23 سال کی عمر میں پاکستانی باکسر نے حکومتی تعاون کے بغیر 26 تمغے کیسے جیتے؟
ان کا کہنا تھا کہ ہم خود بچوں کو ٹرین کرتے وقت سوچتے ہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہے، یہ بچے کل کو ہم سے سوال کریں گے کہ ہمارا روزگار کیا ہوگا، پہلے اتنا تھا کہ چلو یہ بڑے ہو کر کسی ڈیپارٹمنٹ میں چلے جائیں گے لیکن اب تو وہ بھی نہیں رہا۔
لیاری میں بیشمار ارشد ندیم، رونالڈو اور میسی ہیں
اسسٹنٹ کوچ خالد بلوچ کہتے ہیں کہ ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ ارشد ندیم نے پاکستان کا پرچم بلند کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے ہی بہت سارے ارشد ندیم، رونالڈو اور میسی اس گراؤنڈ میں موجود ہیں لیکن حکومت کی توجہ درکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان سے درخواست ہے کہ کھیلوں کی طرف توجہ دیں تاکہ ان لیاری کے کھلاڑیوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔
اسٹریٹ چائلڈ فٹبال کپ کا فائنل ہارنے کی وجہ کیا رہی؟
ناروے میں اسٹریٹ چائلڈ فٹبال میں پاکستان کی ٹیم کی نمائندگی کرنے والے کاشف کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں نے 8 ماہ کی ٹریننگ کی تھی لیکن ہماری بدقسمتی رہی کہ ہم فائنل میں ہارگئے۔
مزید پڑھیں: خواب سچ ہوا:پاکستانی گلوکارہ ایوا بی کی گلوبل اسپن کے لیے’رائز اِن لیاری‘ پر شاندار پرفارمنس
ان کا کہنا ہے کہ سہولیات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ہم فائنل نہیں جیت سکے باقی ٹیموں کے پاس وہ سہولیات تھیں۔
سہولت ملے تو دنیا سے آگے نکل جائیں گے
اسٹریٹ چائلڈ فٹبالر عبدالغنی کا کہنا ہے کہ ناروے میں یہ فرق محسوس کیا کہ باقی ممالک کے کھلاڑیوں کے پاس سہولیات تھیں جبکہ ہمارے پاس نہیں تھیں اگر ہمیں سہولیات مل جاتی ہیں تو سب کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔
گراؤنڈ چئیرمین عبدالواحد بلوچ کا کہنا تھا کہ کوشش ہے کہ گراؤنڈ میں مزید سہولیات فراہم کی جائیں پہلے چھوٹے کھلاڑی کم تھے اب بڑھ چکے ہیں
انہوں نے بتایا کہ کہ گراؤنڈ میں اگر کوئی بھی پراپر کٹ میں آجائے تو ہم اسے روکتے نہیں خواہ اس کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔