گرفتاری کے بعد عدالت میں پیشی سے ملزم کو کیسے استثنیٰ مل سکتا ہے؟

منگل 20 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کارساز سروس روڈ پر کار حادثہ کیس جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے، ویسے ہی بہت سے سوالات کو بھی جنم لے رہے ہیں، جیسا کہ آج پہلے ہی ریمانڈ پر ملزمہ کو عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا جاسکا۔ اس حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال جنم لے رہا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ گرفتار ملزم یا ملزمہ کو پہلی ہی پیشی پر عدالت کے روبرو پیش نہ کیا جائے؟

گرفتاری کے بعد ملزم کو کتنی دیر میں عدالت میں پیش کرنا ضروری ہوتا ہے؟

قانونی ماہر خیر محمد خٹک نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کسی بھی واقعے یا حادثے کے بعد سب سے پہلا مرحلہ ایف آئی آر کے اندراج کا ہوتا ہے، اس کے بعد ملزم کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں کراچی کی کارساز روڈ پر تیز رفتار گاڑی سے جاں بحق باپ بیٹی کون تھے؟

انہوں نے کہاکہ کسی بھی ملزم کی گرفتاری کے بعد 24 گھنٹے کے اندر ملزم کو عدالت کے روبرو پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر ایف آئی آر کے بعد ملزم کی گرفتاری عمل میں نہ لائی جاسکے تو پھر بھی عدالت کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔

خیر محمد خٹک نے کہاکہ ایف آئی آر کی 4 نقول ہوتی ہیں، جس میں ایک تھانے کے پاس ہوتی ہے، ایک ایس ایس پی آفس جاتی ہے، ایک عدالت میں جمع ہوتی ہے جبکہ ایک نقل مدعی کو فراہم کی جاتی ہے۔

گرفتار ملزم کو کس صورت عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا؟

قانونی ماہر خیر محمد خٹک کے مطابق ملزم کی گرفتاری کے بعد اسے 24 گھنٹے میں ضابطہ فوجداری اور آئین پاکستان کے تحت متعلقہ مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرنا ضروری ہے، لیکن اگر کسی ملزم کو کوئی عارضہ لاحق ہے اور اس کی جان جانے کا خطرہ ہے تو ایسی صورت میں ملزم کو میٹیکو لیگل آفیسر کی سفارش پر عدالت میں پیش نہیں کیا جائے گا۔

نفسیاتی مسائل کا شکار ملزمان کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟

انہوں نے کہاکہ نفسیاتی مسائل کا شکار ملزمان کے حوالے سے مینٹل ہیلتھ آرڈیننس موجود ہے، لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ کیا ملزم یا ملزمہ اس نوعیت کے نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے کہ اسے عدالت میں پیش کرنے سے اس کی موت واقع ہو جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون شہریوں کے تحفظ کے لیے بنا ہے اور کسی ملزم کی جان کو خطرہ ہو تو اسے ایک ایسے میڈیکل آفیسر کی سفارش پر استثنیٰ دیا جاسکتا ہے جو سرکاری طور پر تعینات ہو۔

خیر محمد خٹک نے کہاکہ اگر کسی ایسے ملزم کو عدالت پیش نہیں کیا جاتا جسے جان کا کوئی خطرہ نہیں تو ایسی صورت میں جس میڈیکل آفیسر نے سرٹیفیکیٹ جاری کیا ہے اس کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں کارساز ٹریفک حادثہ: کیا ملزمہ واقعی نفسیاتی مریضہ ہے، جناح اسپتال کی رپورٹ کیا ظاہر کرتی ہے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کسی کیس میں عدالت کو میڈیکل سرٹیفیکیٹ پر شک ہو تو عدالت اپنا نمائندہ بھی ملزم کی جانچ پڑتال کے لیے بھیج سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp