نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری

جمعہ 23 اگست 2024
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آپ نے اردو زبان کا ایک محاورہ بہت بار پڑھا، سنا ہوگا ’نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔‘

اردو لغت میں اس کے معانی ہیں ’فساد اور پریشانی کی جڑ کاٹ دینا، بنیاد ہی کو مٹا دینا بہتر ہے۔‘ یہ معانی ہمیں اس قدر بہتر طور پر کبھی سمجھ نہیں آئے، جتنے آج کل سمجھ آرہے ہیں۔ ہمیں دیر سے اس لیے سمجھ آئے کہ ہم دیر سے پیدا ہوئے۔ انیس سو سینتالیس میں پیدا ہوتے تو ہمارے اذہان و قلوب کب کے ’روشن‘ ہوچکے ہوتے۔

پاکستان کے پالیسی ساز گزشتہ پون صدی سے اسی محاورے کی روشنی میں اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے چلے آرہے ہیں۔ ملکی تاریخ اور یہاں کے پالیسی سازوں کی حکمت عملیوں کا مطالعہ ایک ترتیب سے کیا جائے تو  قاری کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔

قیام پاکستان میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کا کیا اور کتنا کردار رہا، اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ چودہ اگست انیس سو سینتالیس کے فوراً بعد مشرقی پاکستان والوں نے تعمیر پاکستان کے لیے بھی سرگرم کردار ادا کرنے کی کوشش کی تو مغربی پاکستان سے ایک طبقہ جو متحدہ پاکستان پر مسلط تھا، کو  ان کا یہ کردار اچھا نہ لگا۔ پہلے ان لوگوں کو کنٹرولڈ جمہوری طریقوں سے قابو کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکامی ہوئی۔ پھر پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب کے دادا جنرل محمد ایوب خان کو یاد آیا کہ اگر بانس ہی کاٹ کر پھینک دیا جائے تو بانسری بنے گی نہیں اور وہ اس کی آواز سننے سے محفوظ و مامون رہیں گے۔ چنانچہ جنرل صاحب نے صاف صاف مشرقی پاکستان والوں سے کہہ دیا کہ دفع ہوجاؤ، پاکستان سے الگ ہوجاؤ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ہم نے بنایا، اس لیے پاکستان سے الگ ہونا ہے تو آپ ہی کو ہونا ہوگا۔ اس کے بعد جنرل صاحب مشرقی پاکستان کو کاٹ کر پھینکنے کی حکمت عملی پر کام شروع کردیا، ان کے کام کو ایک اور جنرل صاحب نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ سب نے دیکھا کہ ان کی حکمت عملی کامیاب ہوئی۔

جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ خان کے بعد آنے والے عسکری اور غیر عسکری جرنیلوں نے بھی اسی محاورے کو نسخہ کیمیا سمجھا۔ چنانچہ اسی کی مطابق علاج معالجہ کرتے رہے۔ آج کل بھی یہی نسخہ کیمیا کارگر سمجھا جاتا ہے۔

ابھی گزشتہ ہفتے ‘وی نیوز’ میں ایک خبر شائع ہوئی، جس کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے لنڈی کوتل میں ایک جرگہ منعقد ہوا۔ جرگے کے سامنے سوال یہ تھا کہ علاقے میں دہشت گردی کیوں بڑھ رہی ہے اور اس کا قلع قمع کیسے ہو سکتا ہے؟

جرگہ اس نتیجے پر پہنچا کہ سارے علاقے کے درخت کاٹ دیے جائیں۔ اس طرح دہشت گردوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی اور ان کا خاتمہ بہ آسانی ہو جائے گا۔ چنانچہ پورے علاقے میں لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے اعلانات کیے گئے کہ کاٹ دو ان درختوں کو۔’ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری‘۔ یہ حکمت عملی کس قدر کامیاب رہے گی، اس کا جواب پانے کے لیے آپ کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ ان شااللہ۔

آج کل بھی اسی محاورے کی روشنی میں قومی سطح کا ایک بڑا معاملہ حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔  پہلے خوب محنت کرکے ’تبدیلی پراجیکٹ‘ متعارف کروایا گیا، اب  اسے رول بیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تقریباً دو سال کی محنت کے بعد بھی یہ پراجیکٹ رول بیک ہونے کا نام نہیں لے رہا، بلکہ پھیلتا ہی چلا جارہا ہے، اس لیے اب ’ نہ رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری‘ کے سنہری فارمولا کی روشنی میں انٹرنیٹ کا ٹینٹوا دبانے کی حکمت عملی پر کام جاری ہے۔

پالیسی ساز  وزیراعظم شہباز شریف کو سمجھانے میں بہ آسانی کامیاب ہوگئے ہیں کہ نہ چلے گا انٹرنیٹ نہ اٹھے گی آپ کی حکومت کے خلاف کوئی مخالفانہ لہر۔ چنانچہ فوراً انٹرنیٹ کو انتہائی سست کردیا گیا۔ وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار کو 30 سے 40 فیصد کم کردیا گیا ہے۔

اس حکمت عملی کے فوراً  جو نتائج سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق ان دنوں صرف ٹیلی کام سیکٹر کو روزانہ پانچ کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ حکمران مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ کے مطابق پاکستانی معیشت کو روزانہ پچاس کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ہم پاکستانی خزانہ بھرنے کے لیے ایک ایک پیسہ جمع کر رہے ہیں۔

پاکستان فری لانسنگ کی عالمی مارکیٹ میں چوتھے نمبر پر ہے۔ ہر سال فری لانسنگ کا گروتھ ریٹ 78 فیصد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 30 لاکھ افراد آن لائن ملازمتیں کرتے ہیں۔ ان کی زیادہ تعداد 30 سال سے کم عمر ہے۔

یہ وہ فری لانسرز ہیں جو اپنے ہی گھروں میں بیٹھ کر، اپنے ہی وسائل کے بل بوتے پر بیرون ملک سے سینکڑوں ملین ڈالرز پاکستان میں لا رہے ہیں۔ یہ تیس لاکھ فری لانسرز غیرملکی جیبوں سے ڈالرز نکال کر پاکستان کی جیب میں ڈال رہے ہیں۔ وہ یہ خدمت ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب پاکستانی خزانے کو بھرنے کی اشد ضرورت ہے۔

دوسری طرف ہمارے پالیسی ساز ہیں۔ اپنی ہی ایک جیب سے پیسے نکال کر دوسری جیب میں ڈال کر سمجھا جا رہا ہے کہ اس سے پاکستانی خزانہ بھر جائے گا۔ پاکستانی پالیسی سازوں کی اس ‘عظیم الشان’ حکمت عملی کو ‘سنہری حروف’ میں لکھا جانا چاہیے۔

آن لائن کام کرنے والے تیس لاکھ پاکستانی بے روزگاروں کی فوج میں شامل ہونے کی بجائے  اپنی آنکھوں میں شاندار مستقبل کے حسین خواب سجا کر مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے شبانہ روز کام کو دیکھتے ہوئے سمجھ آیا کہ رات دن ایک کرنا کیا ہوتا ہے۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ بخوبی علم ہوگا کہ بے روزگاروں کی فوج کا حجم جس قدر بڑا ہوگا، ملک میں بے چینی اور حکومت کے لیے پریشانی اسی قدر  بڑھتی چلی جاتی ہے۔

چند روز پہلے بنگلہ دیش میں جو انقلاب بپا ہوا ہے، اس کا جائزہ لے لیجیے۔ سڑکوں پر نکلنے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی بے روزگاری تھا۔ وہ روزگار چاہتے تھے لیکن حسینہ واجد روزگار کے کیک کا بڑا حصہ اپنی پارٹی ‘ عوامی لیگ’ کے کارکنوں کو دے رہی تھیں۔ فوج، پولیس، بیوروکریسی، عدلیہ سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں سرکاری ملازمتیں اپنے ہی لوگوں کو دے رہی تھیں۔

اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا پریشر ککر ایسا پھٹا کہ حسینہ واجد نے ڈیڑھ عشرے کی محنت سے جو اپنا ’عوامی لیگی نظام‘ قائم کیا تھا، وہ بھک سے اڑگیا۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ سروس بند کرنے سے حکومت مخالف جذبات کو لگام دی جاسکتی تو بنگلہ دیش میں انقلاب نہ بپا ہوتا، حسینہ واجد آج بھی حکمران ہوتیں!

کوئی ایک مثال پیش کردیجیے جس سے ثابت ہو کہ انٹرنیٹ کی سست روی انقلاب کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے۔ اس لیے پالیسی سازوں سے گزارش ہے کہ کسی قسم کے انقلاب کا کوئی خطرہ محسوس ہورہا ہے تو  ملکی معیشت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیجیے، مڈل کلاس اور لوئر کلاس کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیجیے، ان کی زندگی کو خوشحال کیجیے، انقلاب اپنی موت آپ مر جائے گا۔ انٹرنیٹ بند کرنے سے انقلاب کی رفتار تیز ہوتی ہے جناب!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp