دنیا کے بیشتر ملکوں میں جینز آپ کی الماری میں موجود کپڑوں میں وہ واحد پہناوا ہے جو عملی طور پر آرام دہ اور ہونے کے باعث گھر میں آرام کرنے سے لے کر باہر جانے تک ہر موقع پر استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن شمالی کوریا میں لباس کا یہ بظاہر معصوم جزو سختی کے ساتھ ممنوع ہے۔
ایک ایسی جگہ پر رہنے کا تصور کریں جہاں جینز کے جوڑے جیسی سادہ چیز کو نہ صرف فیشن بلکہ پورے سماجی نظام کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے، تاہم اس پابندی کے پیچھے کارفرما وجوہات کی جڑیں تاریخ، نظریہ اور ایک حکومت کی اپنے عوام پر آہنی گرفت برقرار رکھنے کی خواہش میں پنہاں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جیسے کو تیسا: شمالی کوریا کے کچرہ غباروں کا جواب جنوبی کوریا کیسے دے گا؟
یہ سمجھنے کے لیے کہ شمالی کوریا والے جینز کیوں نہیں پہن سکتے، آپ کو دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد 20ویں صدی کے وسط میں واپس جانا ہوگا، کوریا کو دو الگ الگ دھڑوں یعنی شمالی اور جنوبی کوریا میں تقسیم کیا گیا تھا، ہر ایک عالمی سپر پاور کی مخالفت سے متاثر تھا۔
کم ال سنگ کی قیادت میں شمالی کوریا کی تشکیل کمیونسٹ نظریات سے ہوئی، جس کے سوویت یونین اور بعد میں چین کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے، دوسری طرف، امریکا نے جنوبی کوریا سے مضبوط اتحاد کی بنیاد رکھی، اور وقت گزرنے کے ساتھ، امریکا سے وابستہ ہر چیز کی علامت بن گئی ہر اس چیز کی جو شمالی کوریا کی حکومت کی مخالف تھی۔
مزید پڑھیں: روسی صدر کا شمالی کوریا کے رہنما کو کار کا تحفہ، اقوام متحدہ کو اعتراض کیوں؟
جینز خاص طور پر سرد جنگ کے دوران مغربی بلکہ خصوصیت کے ساتھ امریکی ثقافت کی علامت بن گئی، جینز کو صرف پتلون نہیں بلکہ مغربی انفرادیت، آزادی اور بغاوت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا، ایک ایسی حکومت کے لیے جو ریاست کے ساتھ مطابقت، نظم و ضبط اور مکمل وفاداری کو اہمیت دیتی ہے، جینز صرف ایک فیشن بیان سے بڑھ کر ایک خطرے کے طور پر دیکھا گیا۔
ثقافتی کنٹرول: فیشن بطور طاقت کا آلہ
شمالی کوریا میں فیشن صرف ذاتی اظہار کے بارے میں نہیں بلکہ یہ حکومت کے نظریے کا عکاس ہے، حکومت زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو کنٹرول کرتی ہے، شہریوں کی ملازمتوں سے لے کر ان کے کپڑوں تک، روایتی کوریائی لباس اور ملبوسات جو ملک کے سوشلسٹ نظریات کی عکاسی کرتے ہیں انہیں بہت زیادہ فروغ دیا جاتا ہے، جبکہ مغربی طرز کے لباس پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا اس پر مکمل پابندی ہے۔
مزید پڑھیں: شمالی کوریا نے ’فریڈم ایج‘ مشقوں کے جواب میں 2 بیلسٹک میزائل داغ دیے
یہ حکومت کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟ کیونکہ لباس ایک طاقتورعلامت ہے، دنیا کے بہت سے حصوں میں جینز نے نوجوانوں کی بغاوت سے لے کر ثقافتی تبدیلی تک ہر چیز کی نمائندگی کی ہے، شمالی کوریا کی حکومت کی نظر میں لوگوں کو جینز پہننے کی اجازت دینے سے دوسرے مغربی اثرات مثلاً موسیقی اور فلموں سمیت نت نئے خیالات کے دروازے کھل سکتے ہیں، جو بالآخر لوگوں کو ریاستی جمود پر سوال اٹھانے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔
جینز پر پابندی اس ریاستی کنٹرول کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ ہے تاکہ آبادی کو حکومت کے خالص، سوشلسٹ معاشرے کے وژن سے ہم آہنگ رکھا جا سکے، یہ فقط پتلون پہننے یا نہ پہننے کا مسئلہ نہیں، یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ شمالی کوریا میں زندگی کا ہر پہلو، یہاں تک کہ لوگ کا لباس بھی، حکومت کے بیانیے کی حمایت کرتا ہے۔
بغاوت کا خوف: جینز بطور انحراف کی علامت
تاریخ میں جینز ایک آرام دہ لباس سے بڑھ کر مزاحمت کی علامت رہی ہے، 1960 اور 70 کی دہائیوں میں جینز دنیا بھر میں ’کاؤنٹر کلچر‘ تحریکوں کی یونیفارم بن چکی تھی، امریکا میں شہری حقوق کے کارکنوں سے لے کر یورپ میں اسٹیبلشمنٹ مخالف مظاہرین تک، جینز بجا طور پر ایک ہی ابلاغ کا استعارہ بن چکا تھی کہ ’میں باغی ہوں‘۔
مزید پڑھیں: شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان مفاہمت کی امیدیں دم توڑگئیں، کم جونگ کے سخت فیصلے
شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان کی حکومت کسی بھی قسم کے اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے پر یقین رکھتی ہے یہاں تک کہ بغاوت کا ہلکا سا اشارہ بھی ناقابل قبول ہے۔ حکومت انتہائی چوکس ہے، اپنے شہریوں کی مسلسل نگرانی کر رہی ہے تاکہ نافرمانی کے آثار تلاش کیے جاسکیں، جینز پر پابندی لگا کر حکومت مزاحمت کی ممکنہ علامتوں کو ہٹا چکی ہے، چاہے وہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں۔