حکومتِ پنجاب کا کچے کے ڈاکوؤں کے سر کی قیمت کا اعلان

جمعہ 23 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حکومت پنجاب نے کچے کے خطرناک ترین(ہائی ویلیو ٹارگٹ )ڈاکوؤں کے سرکی قیمت ایک کروڑ روپے جبکہ خطر ناک ڈاکو کی گرفتاری پر 50 لاکھ روپے انعام مقرر کر دیا ہے۔

جمعہ کو حکومت کی پنجاب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کچے کے ڈاکوؤں کو ہلاک و گرفتار کرنے والے کے لیے انعام کا اعلان کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کچے کے ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن کامیاب کیوں نہیں ہوتے؟

اعلان کے مطابق خطرناک ترین ڈاکوؤں کے سرکی قیمت ایک کروڑ اور گرفتاری پر 50 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے جب کہ کم خطرناک ڈاکوؤں اور دہشتگردوں کی گرفتاری پر25لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ماچھکہ کے علاقے میں جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شپ کچا گینگ کے راکٹ حملے میں 12پولیس جوان شہید ہو گئے جبکہ 9 جوان زخمی ہوئے ہیں۔

ڈاکوؤں کے اس طرح کے حملہ نے پورے سسٹم کو ہلا کر رکھا دیا ہے پولیس کے مطابق یہ اب تک کا ڈاکوؤں کا سب سے بڑا حملہ ہے۔

مزید پڑھیں:ڈاکوؤں کے حملے میں شہید پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ ادا، لواحقین کے لیے 50,50لاکھ امداد کا اعلان

حملے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، آئی جی پنجاب، سیکرٹری داخلہ سمیت اعلیٰ افسران رحیم یار خان میں موجود ہیں جو اس آپریشن کو دیکھ رہے ہیں۔

پنجاب پولیس کے مطابق ڈاکوؤں کے سرغنہ بشیر شر کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ 5 ڈاکو زخمی ہیں، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس کے بہادر جوانوں نے ملک و قوم کے لیے ہمیشہ عظیم قربانیاں پیش کی ہیں۔ پنجاب پولیس کچہ کے ڈاکوؤں کے خاتمے تک کارروائیاں جاری رکھے گی۔

کچے میں اب تک کتنےآپریشن ہوچکے ہیں

کچے کا علاقہ تقریباً 60 سے 100 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے، دی نیوز کے صحافی شیر علی خالطی کے مطابق 60 سے 100 کلومیٹر کچے کا علاقہ ملک کے تینوں صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی سرحد کے ساتھ ملتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک کچے کے علاقے میں 17 سے 18 آپریشن ہوچکے ہیں جو ناکام رہے ہیں، اب تو ہر سال کچے کے علاقے میں پولیس، ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرتی ہے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا، بہت سے پولیس والے مارے جاچکے ہیں ،جبکہ کئی ڈاکوؤں کو بھی ہلاک کیا جا چکا ہے، مگر کچے کے ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔

یہ بھی پڑھیں:رحیم یار خان راکٹ حملہ، 12 پولیس جوان شہید، 6 زخمی، 5 لاپتا

2002 بابا لونگ لاٹھنی گینگ میں سارے چھوٹے موٹے گینگ شامل ہوگئے،اس وقت کچے کے علاقے میں سرداری نظام تھا، اگر کوئی گینگ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتا تو سردار پنچائیت کے ذریعے اس کو دبا لیتے تھے، لیکن جب سے سپریم کورٹ نے پنجائیت سسٹم ختم کیا تو طاقت سرداروں سے چھین کر پولیس کے پاس چلی گئی جبکہ کچے کے علاقے میں لوگ مانتے ہی سرداروں کی بات ہیں۔

جب پنچائیت سسٹم ختم ہوا تو لوگ ایک دوسرے سے بدلا لینے کے لیے مختلف گینگز کے ساتھ جڑ گئے کوئی،لاٹھنی گینگ میں چلا گیا تو کوئی عمرانی اور کوئی لونڈ گینگ کے ساتھ شامل ہوگیا پھر یہ گینگ پولیس کے اختیارات کو مختلف اوقات میں چیلنج کرتے رہے۔

صحافی نے بتایا کہ ان گینگز کے پاس جدید اسلحہ ہے، افغانستان میں نیٹو کا لوٹا ہوا اسلحہ یہاں پہنچا ہے جب کہ کچھ اسلحہ بھارت سے بھی بلوچستان کے راستے اسمگلز کر کے ان کے ٹھکانوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

پولیس کی وجہ سے یہاں گینگز محفوظ ہیں

شیر علی خالطی نے دعویٰ کیا کہ یہاں پولیس سسٹم بگڑ چکا ہے ،کچے کی علاقے کے 12 سے 13 ایس ایچ اوز ایسے ہیں جو مختلف گینگیز کو اسپورٹ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ گینگیز محفوظ ہیں، اس کا نقصان پولیس سپاہیوں کو ہوتا ہے جو آپریشن کے دوران شہید ہوجاتے ہیں لیکن افسران کو کچھ نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس سرداروں کو بھی سپورٹ کرتی ہے ،یہ صورتحال پچھلے کئی سالوں سے چلی آرہی ہے، حکومت کچے میں تعینات تمام ایس ایچ اوز کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثے چیک کروائے سب سامنے آجائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp