سیاسی جماعتوں کی بھی زندگی ہوتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت کا جنم ہوتا ہے، جس کے بعد یہ بچپن، لڑکپن، نوجوانی، اور بڑھاپے کے مراحل سے ہوتی ہوئی بالاآخر موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔
سیاسی جماعت جاندار تو نہیں ہوتی مگر اسے جاندار سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، جس طرح تھامس ہابز، ہیگل اور مارگنتھاؤ جیسے فلاسفروں نے ریاست کو جاندار مان کر سیاسیات کی تھیوریاں پیش کی ہیں۔
ہر جاندار ایک فطری اصول کے تحت اپنی زندگی جاری و ساری رکھتا ہے، فطری طریقے سے پیدائش اور موت ہوتی ہے، بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا گزارتا ہے، اور صحت کی بہاریں دیکھتا ہے اور بیماری کی آزمائشیں جھیلتا ہے۔ مگر سیاسی جماعت فطری اصولوں کے تحت نہیں چلتی، اس پر کب لڑکپن آتا ہے اور کب بڑھاپا، اس کا پتا خود جماعت والوں کو بھی نہیں ہوتا۔
آپ پاکستانی سیاسی جماعتوں کی زندگی دیکھیں، پیپلز پارٹی جنرل ضیاء الحق کے دور میں بوڑھی اور بیمار ہو گئی تھی، بلکہ قریب المرگ تھی، مگر بعد میں اسی جماعت پہ زبردست جوانی کا دور آیا، ایسی جوانی کہ انہوں نے حکومتیں بنائی۔
اسی طرح مسلم لیگ ن کو جنرل پرویز مشرف نے معذور کر دیا تھا، یہ کئی عرصہ تک موت کے منہ میں پڑی رہی، مگر بعد میں واپس جوان اور تندرست ہوئی اور حکومت بھی بنائی۔
جمعیت علمائے اسلام آزادی پاکستان سے پہلے کی جماعت ہے۔ اس کی تاریخ دیکھیں تو یہ کبھی موت کے منہ میں نہیں گئی، اسے ہلکی پھلکی بیماریاں تو ہوتی رہیں مگر کبھی جان لیوا مرض لاحق نہیں ہوا۔
پاکستان تحریک انصاف کو دیکھیں، یہ بچپن، لڑکپن، اور جوانی سے ہوتے ہوئے بڑھاپا کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کوئی ‘غیر فطری طاقت’ اسے زبردستی بڑھاپے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ عالمِ شباب میں 9 مئی کی بیماری ایسی لگی کہ پارٹی کو بستر سے لگا دیا۔
کل تک اس پارٹی کے بازو مضبوط کرنے کے لیے دوسری جماعتوں کے بازو کاٹے جا رہے تھے مگر آج اس کے اپنے پر نوچ لیے گئے۔ کہتے ہیں کہ پرائی چار پائی آدھی رات کی ہوتی ہے، تحریک انصاف نے جو پرائے پر کاٹ کر اپنے بازو مظبوط کیے تھے، وہ پر واپس اپنے اصل کی طرف چلے گئے، کچھ ابھی بھی جا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں تحریک انصاف اس جبری بڑھاپے سے موت کے منہ میں جاتی ہے یا علاج معالجہ کرا کر واپس تندرست اور جواں ہوتی ہے۔
اس حوالے سے سیانوں مختلف آرا رکھتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ اس جماعت نے قوم یوتھ کو اپنا محور و مرکز بنایا ہے، جبکہ پاکستان میں تقریباً 60 فیصد نوجوانوں کی آبادی ہے، اور مستقل میں یہ تعداد مزید بڑھے گی۔ سیانے یہ بھی کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان میں نوجوانوں کے ذہنوں کو تحریک انصاف کے علاؤہ کوئی بدلنے والا نظر نہیں آ رہا، قوم یوتھ کو عمران خان کا نشہ لگ گیا یا وہ اس فارمولے پر فٹ آ گئے ہیں، فی الحال ایسا کہیں اور ہونا محال ہے۔
جبکہ دوسری رائے رکھنے والے سیانے کہتے ہیں کہ نوجوانوں کا تحریک انصاف کے ساتھ جڑنے کی اہم وجہ عمران خان ہیں، عمران خان بزرگی کو پہنچ چکے ہیں، اگر وہ نہ رہے تو قوم یوتھ کا یہ جذبہ، یہ نشہ اور یہ فارمولہ سب ختم ہو جائے گا۔ یہ قوم صرف عمران خان کے نام پر اکھٹی ہے، اس کے علاوہ کسی کو نہیں مانتی، یہاں تک کہ عمران خان کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں کو بھی نہیں مانے گی۔
دوسری رائے رکھنے والے سیانوں کے مطابق عمران خان کے بعد تحریک انصاف کی زندگی ختم ہو جائے گی۔ اگر زندہ رہی بھی تو ناکام عاشق اور طلاق یافتہ شخص کی مانند اس کی زندگی تتر بتر ہوگی۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ ایسا جاندار ہے کہ مر کر بھی زندہ ہو سکتا ہے۔ جب تاریخ میں بوڑھی اور بیمار سیاسی جماعتوں کو دوبارہ تندرستی اور جوانی ملی ہے تو شاید تحریک انصاف کو بھی مل جائے۔ اب چونکہ فطری جانداروں کی زندگی تو فطرت کے مطابق ہوتی ہے، اور ہم بھی ایک جاندار ہیں، خدا جانے تب تک ہونگے کہ نہیں، لہذا مستقبل کا حال کیسا ہوگا، یہ اس وقت کے جاندار دیکھ لیں گے۔