سری لنکا کے عظیم کھلاڑی سنتھ جے سوریا نے کہا ہے کہ بیز بال کرکٹ کوئی نئی چیز نہیں۔اس کے چرچے کو وہ میڈیا کی تشہیر قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اس طرز کی کرکٹ ان کے وقتوں میں بھی تھی۔ حوالے کے طور پر وہ آسٹریلیا کے ایڈم گلکرسٹ اور میتھیو ہیڈن کا نام لیتے ہیں۔ جے سوریا کی باتیں توجہ کی طالب ہیں۔ کرکٹ کی تاریخ میں انہیں رجحان ساز کرکٹر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔1996 کے ورلڈ کپ میں انہوں نے اپنی بلے بازی کے جارحانہ اسلوب سے ون ڈے کرکٹ کی سمت بدل دی تھی۔
کوارٹر فائنل میں 44گیندوں پر 82 رنز بنائے۔ بولروں کا تیا پانچا کردیا۔انگلینڈ پہلی دفعہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں نہیں پہنچ سکا۔ایک برطانوی اخبار نے اپنی ٹیم کی حالتِ زار اس سرخی کے ذریعے بیان کی: ہیپ لیس، ہوپ لیس، ہیومیلیٹیڈ
اس سے پہلے انڈیا کے خلاف میچ میں وہ دنیائے کرکٹ کو اپنے خطرناک ارادوں کی خبر دے چکے تھے۔
جے سوریا نے جارحانہ سٹائل کی وجہ سے ون ڈے کرکٹ میں نقش جمایا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا۔دوسروں کو ان کے رستے پر چلنا پڑا۔ ون ڈے کرکٹ میں ان کی عظمت کے پہلو پر یہ ناچیز پہلے لکھ چکا ہے اور اب بیزبال کے بارے میں جے سوریا کے بیان نے اسے انگلینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ میں جے سوریا کی شاندار کارکردگی کے متعلق کچھ لکھنے پر اکسایا ہے۔ یہ بات اس لیے بھی حسبِ حال معلوم ہوئی کہ سری لنکا ان دنوں انگلینڈ کے دورے پر ہے اور جے سوریا ٹیم کے کوچ ہیں۔1998 میں کھیلنے جانے والے جس اوول ٹیسٹ کا قصہ ہم سنانے جارہے ہیں وہ سری لنکن کرکٹ اور جے سوریا، دونوں کے واسطے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔یہ آج جو سری لنکا تین ٹیسٹ میچوں کی سیریزکھیل رہا ہے تو اس کی وجہ بھی اوول ٹیسٹ ہی ہے، نہیں تو اس سے پہلے اسے ماٹھی ٹیم جان کر انگلینڈ میں ایک ٹیسٹ کھلا کر ٹرخا دیا جاتا تھا۔ ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ جے سوریا کے خیال میں انگلینڈ والے ایک ٹیسٹ کھیلنا بھی اپنے وقت کا ضیاع ہی سمجھتے تھے۔ اسے نخوت کہتے ہیں۔اوول ٹیسٹ نے لیکن سب کچھ بدل دیا۔سری لنکن کپتان ارجنا رانا ٹنگا نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا۔ بلے بازی کے لیے سازگار وکٹ کی وجہ سے ماہرین نے اس فیصلے پر تنقید کی۔انگلینڈ کے کھیل سے رانا ٹنگا کا فیصلہ غلط ہونے پر مہر لگ گئی۔اس نے 158.3 اوورز میں 445 رنزبنائے۔ انگلینڈ کے فاسٹ باؤلر ڈیرن گف کے بقول ’سچ پوچھیے تو ہم نے سوچا تھا کہ کھیل ختم ہو چکا ہے کیونکہ جب آپ پہلی اننگز میں 150 سے زیادہ اوورز میں 445 بنا لیں تو پھر آپ ہارنے کی توقع نہیں رکھتے۔‘وزڈن نے بھی لکھا کہ کم از کم یہ طے ہو گیا تھا کہ انگلینڈ ہار سے محفوظ ہو گیا ہے۔
دوسرے دن کھیل کے اختتام پر سری لنکا نے19اوورز میں ایک وکٹ کے نقصان پر 79 رنز بنائے۔ جے سوریا نے 58 گیندوں پر نصف سنچری مکمل کی۔ تیسرے دن شاندار بلے بازی کا سلسلہ جاری رہا۔278 گیندوں پر 213 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ ادھر اروندا ڈی سلوا نے بھی سنچری مکمل کرلی۔ان سنچریوں کے آگے گراہم ہک اور جان کرالی کی سنچریاں پھیکی پڑ گئیں۔ سری لنکا نے تیسرے دن 367 رنز بنائے جس میں گزشتہ دن کے 79 رنز ملانے سے اس کا مجموعی سکور446 ہو گیا۔ انگلینڈ نے158.3 اووروں میں 445 رنز بنائے تھے جبکہ سری لنکا نے 446 رنز بنانے کے لیے 110اوور صرف کیے، انگلینڈ کی پہلی اننگز سے 43.3اوورز کم۔ ٹیسٹ میں یہ برق رفتاری انگلینڈ کی ٹیم اور شائقین کے لیے نئی بات تھی۔وہ بھی اس ٹیم کی طرف سے جو ان کے نزدیک کسی شمار قطار میں ہی نہیں تھی۔ اس سے اپنے ملک میں ایک سے زیادہ ٹیسٹ کھیلنے کے وہ روادار نہیں تھے۔
کھیل کے چوتھے دن سری لنکن ٹیم 591 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔کہیں تو یہ صورت حال تھی کہ پہلی اننگز کے بعد اس کی جیت کا امکان ہی تقریباً ختم ہو گیا تھا اور اب جیت کے لیے اس کی امید کا دیا روشن ہوا اور کامیابی انگلینڈ سے دور ہوتی دکھائی دینے لگی۔
بلے بازوں نے اپنا حق اداکردیا تھا۔ اب مرلی دھرن کی باری تھی جنہوں نے اننگز میں نو کھلاڑی آؤٹ کرکے حریف ٹیم کا دھڑن تختہ کردیا۔ اگر پاکستانی میڈیا کا محاورہ مستعار لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے :’سری لنکا نے گوروں کا غرور خاک میں ملا دیا۔’دسواں کھلاڑی مرلی کی دستبرد سے رن آؤٹ ہونے کی وجہ سے بچ گیا۔ میچ میں سولہ وکٹیں لے کر وہ مردِ میدان ٹھہرے۔
سری لنکا نے جیت کے لیے درکار 37 رنز بغیر کسی نقصان کے بنالیے جس میں جے سوریا کے دو چھکے شامل تھے۔انگلینڈ کا وہ پریس جس کی نظر میں وہ بس ون ڈے میں مار دھاڑ ہی کرسکتے تھے اس کی بات حرفِ غلط ثابت ہوئی۔ یاد رہے اس ’سلوگر‘ نے ٹیسٹ میں ٹرپل سنچری بھی بنا رکھی تھی۔
اس ٹیسٹ کا تذکرہ وزڈن اور دوسری کئی کتابوں میں ہوا ہے۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے اس کا حوالہ سٹیفن شیمانسکی اور ٹم وگ مور کی کتاب ’کرکونومکس،دی اناٹومی آف ماڈرن کرکٹ‘ میں دیکھا جس میں اس ٹیسٹ کے بارے میں قدرے تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ زیر نظر مضمون کے لیے یہ کتاب دوبارہ دیکھی۔ اس میں فاضل مصنفین نے جے سوریا اور ایڈم گلکرسٹ کو ان بلے بازوں میں شمار کیا ہے جنہوں نے ٹیسٹ میں بلے بازی کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی کا فارمیٹ، ٹیسٹ کرکٹ میں تیزی سے رنز بنانے کی وجہ بنا ہے۔ان کے خیال میں یہ تو عہدِ گلکرسٹ کی بات ہے جب اسٹیو وا کی زیر قیادت آسٹریلوی ٹیم نے ٹیسٹ کرکٹ کو تبدیل کردیا تھا۔ ٹی ٹوئنٹی تو کہیں بعد کا قصہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر فارمیٹ کے اپنے تقاضے ہیں جس کا اندازہ انگلینڈ کو اس وقت ہوا جب اس نے ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی کی بنیاد پر جیسن رائے کو 2019کی ایشز میں کھلایا اور وہ بری طرح ناکام ہوئے (چار ٹیسٹ میچوں میں ان کی اوسط 13.75 تھی۔ اس سیریزکے بعد وہ کبھی ٹیسٹ نہیں کھیل سکے) سٹیفن شیمانسکی اور ٹم وگ مور کا کہنا ہے محدود اوورز کی جدید کرکٹ اور ٹیسٹ میں بلے بازی کے لیے یکسر مختلف اپروچ کی ضرورت ہے۔
’کرکونومکس‘ میں شامل باب کے عنوان سے مصنفین کے نقطہ نظر کا اظہار ہو جاتا ہے:
How jayasuriya and Gilchrist transformed Test batting —but T 20 didn’t
اس باب کی طرف دھیان اس لیے بھی گیا کہ بیز بال کے بارے میں بات کرتے ہوئے جے سوریا نے گلکرسٹ کا نام لیا تھا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بلے باز کس طرح پوری ٹیم کے کریکٹر کو بدل سکتا ہے۔وکٹ کیپر کا رول کیسے نئی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس طرح کی جوہری تبدیلی میں گلکرسٹ کی فطری صلاحیت کو ہی بنیادی دخل تھا لیکن اس راہ پر انہیں ڈالنے میں کوچ جان بکانن اور کپتان اسٹیو وا کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بیز بال کرکٹ کو ہی دیکھ لیجیے۔
برینڈن میک کلم کے کوچ بننے کے بعد ہی انگلینڈ نے اسے اختیار کیا اور یہ طرز انہی کی عرفیت سے موسوم ہوئی جسے کپتان بین سٹوکس نے لاگو کرکے نتائج حاصل کیے۔اس نے شائقین کرکٹ ہی نہیں بڑے بڑے کھلاڑیوں کو حیران کیا۔ اس سلسلے کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔2022 میں نیوزی لینڈ کے خلاف نوٹنگھم ٹیسٹ میں انگلینڈ کو جیت کے لیے پچاس اوورز میں 299 رنز چاہیے تھے۔ نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن کا خیال نہیں تھا کہ حریف ٹیم میچ جیتنے نکل پڑے گی لیکن جونی برسٹو کی تیز رفتار سنچری نے انگلینڈ کو فتح دلا دی۔ نیوزی لینڈ نے خیر سے پہلی اننگز میں 553 رنز بنائے تھے۔
پاکستان ٹم بھی بیز بال کرکٹ کی ’وکٹم‘ ہے۔ 2022 میں راولپنڈی ٹیسٹ میں اسے بڑے چرکے لگے تھے۔ خیر بیز بال کے بارے میں کرنے کی باتیں تو بہت سی ہیں لیکن اس کی وجہ سے گلکرسٹ کے انقلابی کردار کا ذکر چھوٹا جاتا ہے تو دوبارہ اس کی طرف پلٹتے ہیں۔
جان بکانن اور اسٹیو وا نے کچھ نیا کرنے کی ٹھانی تھی جس میں یہ تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ کو تکنیکی، جسمانی، ذہنی اور تدبیری زاویہ نگاہ سے از سر نو دیکھا جائے۔ اس زمانے میں آسٹریلیا کی ٹیم کوئی گری پڑی ٹیم نہیں تھی لیکن کامرانی کے سفر میں ایک ایسا وقت ضرور آتا ہے جب آپ کا مقابلہ دوسروں سے نہیں اپنے آپ سے ہوتا ہے اور اگر تخیل میں وسعت اور زرخیزی ہو تو آپ نئی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔ پامال رستے اور دفاعی سوچ اختیار کرنے کے بعد وہی حشر ہوتا ہے جو پاکستانی ٹیم کا ہو رہا ہے، جس میں سسٹم کی خرابیوں کا قصور اپنی جگہ بہت اہم ہے لیکن المیہ تو یہ بھی ہے کہ ہم عرصے سے ایسے کپتان کی تلاش میں ہیں جس کے بڑے کھلاڑی ہونے کا ٹیم کی صحت پر بھی اثر پڑے۔وہ دوسروں کو انسپائر کرسکے۔ اپنے زمانے سے آگے سوچنا تو دور کی بات یہ تو اپنے زمانے سے ہی بہت پیچھے ہوتے ہیں۔
اسٹیو وا اس لیے بڑے کپتان تھے کہ ان کے زمانے میں آسٹریلین ٹیم نے روایتی طرز کی بلے بازی ترک کی۔ تیزی سے رنز بنا کر رن ریٹ بڑھانے کی سوچ پروان چڑھی جس میں ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں زیادہ سے زیادہ رنز بٹور کر مخالف ٹیم پر حاوی ہونے کی صورت پیدا کی جاتی، دوسرے اسے چت کرنے کے لیے وافر وقت بھی میسر آتا۔ اس اپروچ سے میچ ڈرا ہونے کے امکانات خاصے کم ہوئے۔
2000 سے میتھیو ہیڈن ٹیم کا مستقل حصہ بنے تو آسٹریلیا کی اڑان اور بھی اونچی ہو گئی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ بہت سے دیگر بلے بازوں کی طرح گلکرسٹ کو بھی ہاتھ کھولنے کے لیے سب سے پہلے پاکستان ٹیم ہی ملی۔1999میں اس نے پاکستان کے خلاف ٹیسٹ کرئیر کی پہلی اننگز میں 88 گیندوں پر 81 رنز بنا ڈالے۔ اس اننگز میں آسٹریلیا نے 4.13 کی اوسط سے 575 رنزبنائے تھے۔ دوسرے ٹیسٹ میں گلکرسٹ نے چوتھی اننگر میں 163 گیندوں پر ناقابل شکست 149 رنز بنا کر آسٹریلیا کو فتح دلا دی۔ 369 رنز کے تعاقب میں وہ اس وقت وکٹ پر آئے جب آسٹریلیا کے 126 پر پانچ کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے اور ایسا لگ رہا تھا پاکستان یہ میچ جیت جائے گا۔
عام طور سے سینئیر کے کھیل سے جونئیر متاثر ہوتے ہیں لیکن گلکرسٹ کے جارحانہ انداز نے سینئر کو کھیل میں تبدیلی لانے پر مائل کیا۔گلکرسٹ کے ٹیسٹ ٹیم میں آنے سے پہلے 28 ٹیسٹ میچوں میں رکی پونٹنگ کا سٹرائیک ریٹ 46 تھا جو اگلے 28 میچوں میں 69 تک جاپہنچا۔ گلکرسٹ سے پہلے کے چار برسوں میں آسٹریلیا نے 2.95 رنز فی اوور کی اوسط سے رنز بنائے تھے لیکن بعد کے چار سالوں میں یہ اوسط 3.80 ہو گئی۔ تقریباً ایک رنز فی اوور اضافہ ہوا۔ ٹیسٹ میں ایک دن میں نوے اوور کے حساب سے یہ76 رنز بنتے ہیں۔ اسٹیو وا کی کپتانی میں آسٹریلین ٹیم عظیم ٹیم بنی، اس نے لگاتار 16 ٹیسٹ میچوں میں کامیابی حاصل کی۔
کرکٹ ہو یا دنیا میں کوئی اور میدان اس میں نئے رستے تراشنے والے ہمیشہ سیدھی لیک پر چلنے کے خوگروں کے مقابلے میں تاریخ میں یاد رکھے جاتے ہیں۔گلین میگرا نے ایک دفعہ جے سوریا کے ون ڈے میں کمالات پر بات کرتے ہوئے رائے ظاہر کی تھی کہ اگر کسی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اس نے کھیل تبدیل کرکے رکھ دیا تو اسے ہمیشہ ایک بہت بڑا خراج تحسین سمجھا جاتا ہے، میگرا کی یہ بات ٹیسٹ کے حوالے سے ان کے ہم وطن گلکرسٹ پر بھی صادق آتی ہے۔