ناسا کا مصنوعی سیارہ خلا میں گرین ہاؤس گیسوں کے ذرائع کی نشاندہی کیسے کرے گا؟

اتوار 25 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ناسا کا تیار کردہ دنیا کا پہلا ایسا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیج دیا گیا ہے جو زمین پر درجہ حرارت میں اضافہ کرنے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذرائع کی نشاندہی کرے گا۔ ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے سلسلے میں کی جانے والی تحقیق میں سائنسدانوں کی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر خاص توجہ مرکوز ہے۔

گرین ہاس گیسوں سے مراد وہ گیسز ہیں جو زمین سے حرارت جذب کر نے کے بعد فضا سے پھر حرارت زمین کی طرف واپس ریلیز کرتی ہیں اور یوں سطح زمین پر درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ ان گیسوں میں کاربن، میتھین اور پانی کے بخارات شامل ہیں۔ ان گیسوں کے زمین کو گرم کرنے کے عمل کو گرین ہاؤس افیکٹ کہا جاتا ہے۔

’ٹینیجر۔ون‘ سیٹلائٹ کو ماحولیاتی تبدیلی کے تدارک کی جانب ایک اہم ٹول قرار دیا جا رہا ہے۔ سیارے کا نام امریکا میں پائے جانے والے پرندے ٹینیجر سے موسوم ہے۔ ٹینیجر۔ون مختلف سائنسی اداروں کے تعاون سے بنایا گیا ہے جسے ’کاربن مپیر کولیشن‘ کا نام دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:ناسا کی ایک اور پیشرفت، خلائی گاڑی ’کیوروسٹی روور‘ کو مریخ پر پیلے رنگ کی گندھک مل گئی

سیٹلائٹ انتہائی جدید اسپیکٹرومیٹر ٹیکنالوجی کے ذریعہ تصاویر لے گا جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی مقدار بتانے کے ساتھ ساتھ ان گیسوں کے اخراج کے صحیح مقام کی نشاندہی کرے گا۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا بھر میں گیسوں کا اخراج کرنے ولی فیکٹریوں کے محل وقوع اور ان میں استعمال ہونے والی مشینوں کے بارے میں بھی پتا چل سکے گا۔

سیارے سے حاصل ہونے والا ڈیٹا کاربن میپر نامی انٹرنیٹ پورٹل پر عوام کی رسائی میں ہوگا۔ حاصل شدہ ڈیٹا پر مختلف ادارے مل کر تحقیق کریں گے تا کہ خارج ہونے والی میتھین گیس کی مقدار کا صحیح تعین کیا جا سکے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کے ذرائع کا بھی پتا چلایا جاسکے۔

پاکستان جسے تباہ کن سیلابوں اور شدید گرمی کی لہروں کی صورت میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا ہے، عالمی تناظر میں یہ ایک فیصد سے بھی کم گرین ہاؤس گیسون کا اخراج کرتا ہے جبکہ یہ دنیا کے 10 ممالک میں شامل ہے جنہیں آب و ہوا کی تبدیلی کے مہلک ترین اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیاتی تبدیلی پر عالمی معاہدے کے تحت دنیا کے ملکوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب سے قبل کے درجہ حرارت سے دو درجہ سینٹی گریڈ سے بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔ لیکن حالیہ سالوں کی شدید گرمی کے بعد یہ خدشات عام پائے جاتے ہیں کہ اس ہدف کا حصول نظر نہیں آتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp