قومی میڈیا کے مطابق حکومت پارلیمنٹ میں آئینی تریم کے ذریعے ججز کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع چاہتی ہے مگر کیا آئینی ترمیم کے لیے حکومت کے پاس درکار دو تہائی اکثریت موجود ہے؟
ملک بھر میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد کسی بھی جماعت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ 93 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جن کی تعداد سب سے زیادہ تھی، پاکستان مسلم لیگ ن 75 جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 54 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں عدلیہ سے جیسے فیصلے آرہے ہیں آئینی ترمیم ملک کی ضرورت ہے، وفاقی وزیر مصدق ملک
قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کو 17، آزاد اراکین کو 9، جمعیت علما اسلام کو 5 اور مسلم لیگ ق کو 3 نشستیں حاصل ہوئیں۔ جبکہ مسلم لیگ ضیا، مجلس وحدت المسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی۔
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 60 خواتین اور 10 اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں سے بالترتیب 40 اور 7 نشستیں پہلے سے سیاسی جماعتوں کو الاٹ کردی تھیں کیونکہ اس وقت تک سنی اتحاد کونسل کے کوٹے میں آنے والی 23 نشستوں کا فیصلہ نہیں ہوسکا تھا۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن نے یہ 23 نشستیں بھی دیگر سیاسی جماعتوں کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی نشستوں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کے کوٹے کی 23 مخصوص نشستوں میں سے 14 نشستیں ن لیگ، 6 نشستیں پیپلز پارٹی جبکہ 3 نشستیں جمیعت علما اسلام کو دی گئی تھیں۔
مخصوص نشستیں ملنے کے بعد حکمراں اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی تھی، تاہم 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے یہ 23 نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیا تھا جس کے بعد تحریک انصاف کی کُل نشستیں 109 ہوگئی تھیں، یوں حکمراں اتحاد اپنی دو تہائی اکثریت سے محروم ہوگیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں کیا عدالتی فیصلوں کا آئین و قانون کے مطابق ہونا آئینی تقاضا ہے یا نہیں؟ عرفان صدیقی کا جسٹس منصور سے سوال
ذرائع کے مطابق اب حکومت مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن کا حکمران اتحاد سے 23 نشستیں واپس لینے کا نوٹیفکیشن واپس کروائے گی، اس طرح 23 نشستیں پھر سے حکمران اتحاد کو دے دی جائیں گی جس سے ان کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے گی اور ان کی کُل نشستوں کی تعداد 230 ہوگی۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا جاری کیا گیا نوٹیفکیشن اگر نئی قانون سازی کے بعد واپس ہوجاتا ہے تو پی ٹی آئی کی کُل نشستوں کی تعداد 86 رہ جائے گی۔
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی نشستوں کی تعداد
پاکستان مسلم لیگ ن نے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی محض 75 نشستیں حاصل کی تھیں۔ بعد ازاں 9 آزاد اراکین نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد ن لیگ کو خواتین کی 21 اور 4 اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دی گئیں۔ پی ٹی آئی کے کوٹے کی مزید 14 نشستیں ملنے سے ن لیگ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن گئی تھی جس کی کُل نشستوں کی تعداد 122 ہوگئی تھی۔
تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ن لیگ کی 14 نشستیں پھر سے کم ہوگئی ہیں اور اس کی قومی اسمبلی میں کُل نشستوں کی تعداد صرف 108 رہ گئی ہے۔ اب اگر الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن واپس ہوتا ہے تو ن لیگ ایک مرتبہ پھر سے 122 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔
پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں
پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کے ساتھ کُل تعداد 67 ہے، پی ٹی آئی کی 6 نشستیں واپس ہونے سے ان کی کُل نشستوں کی تعداد 73 ہوجائے گی، ایم کیو ایم کی 5 مخصوص نشستوں کے ساتھ کُل تعداد 22 ہے جبکہ جمعیت علما اسلام کی 3 مخصوص نشستوں کے ساتھ کُل نشستوں کی تعداد 8 ہوگی۔
قومی اسمبلی میں 2 مخصوص نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ ق کی کُل نشستوں کی تعداد 5، استحکام پاکستان پارٹی کی 4 نشستیں جبکہ مسلم لیگ ضیا اور نیشنل پارٹی کی قومی اسمبلی میں ایک، ایک نشست ہے۔
حکمراں اتحاد کو سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت حاصل نہیں
دوسری جانب سینیٹ میں بھی حکمراں اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے۔ اس وقت کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو سینیٹ میں 64 ارکان کی حمایت درکار ہے جبکہ حکمران اتحاد کو پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بی اے پی کے 5، عوامی نیشنل پارٹی کے 3، ایم کیو ایم کے 3، بی این پی کا ایک، نیشنل پارٹی کا ایک اور 4 آزاد ارکان سمیت مجموعی طور پر 59 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت پوری کرنے کے لیے ان کو مزید 5 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے۔
اس وقت سینیٹ میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 17، سنی اتحاد کونسل، بی این پی مینگل، مسلم لیگ ق کا ایک ایک رکن موجود ہے جبکہ جمیعت علما اسلام کے 5 ارکان موجود ہیں، ان تمام ارکان کی تعداد 26 ہے۔
جیسا کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی ہے اور ان سے حمایت مانگی ہے، اگر جے یو آئی کے 5 ارکان حکمران اتحاد کی حمایت کا اعلان کردیں تو اس طرح ان کو ایوانِ بالا میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے گی۔