پاکستانی امن کی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے غزہ میں اسرائیلی بمباری سے خوفزدہ بچی کے مصائب اور ڈر اور خوف سے اس کے سر کے بال گرنے پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل سے اپیل کی ہے کہ ’ہمیں اب جنگ بندی اور ان بچوں کی زندگیوں کو بچانے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’انسٹاگرام‘ پر بچی کے ایک انٹرویو کے پوسٹ ہونے کے بعد عالمی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے محصور علاقے میں اسرائیل کی مسلسل بمباری کے دوران ایک چھوٹی فلسطینی بچی کے دکھ اور تکلیف کو اجاگر کیا ہے۔
عرب ٹیلی ویژن الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں 8 سالہ فلسطینی بچی ساما تابیل نے بتایا کہ وہ کس قدر اپنے بالوں سے پیار کیا کرتی تھیں اور اب ان کے گنجے پن کی وجہ سے ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
View this post on Instagram
آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ ساما تابیل نے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ وہ دوبارہ خوبصورت لگنے لگے۔
دل دہلا دینے والی اس ویڈیو میں بچی نے کہا کہ وہ اسکول میں اچھی طالبہ ہے اور اسکول جانے سے پہلے ہر روز اپنے بالوں کی صفائی کیا کرتی تھی۔
ملالہ یوسفزئی نے غزہ میں اسرائیلی فوجی جارحیت کی وجہ سے تناؤ اور صدمے میں اپنے بال کھونے والی اس فلسطینی بچی کے بارے میں انسٹاگرام اسٹوری شیئر کرتے ہوئے اپیل کی کہ معصوم انسانوں اور بچوں کے تحفظ کے لیے فوری جنگ بندی کی جائے۔
ملالہ یوسفزئی نے لکھا کہ ’یہ وہ صدمہ ہے جس کا سامنا فلسطینی بچوں اور بچیوں کو اسرائیل کی بمباری سے کرنا پڑ رہا ہے، ان بچوں کے لیے امن ہے، نہ اسکول، ہمیں اب جنگ بندی کی ضرورت ہے اور ان بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔
نوبل انعام یافتہ پاکستانی ملالہ یوسفزئی نے فلسطینی بچوں کے حقوق کے لیے بار بار آواز اٹھائی ہے اور غزہ بالخصوص تعلیمی اداروں پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی ہے۔ رفح میں اسرائیلی فوج کے حملے کے بعد اس فلسطینی بچی کو اس کے اہل خانہ کے ساتھ بے گھر ہونا پڑا تھا۔
فلسطینی بچی ساما تابیل نے مزید بتایا کہ حملے کے وقت وہ اور ان کے اہل خانہ سو رہے تھے اور وہ فائرنگ اور بم دھماکوں کی آوازوں سے بیدار ہوئے۔ اس واقعے کے کئی دنوں بعد اس کے بال گرنے لگے۔
ساما کی والدہ کا کہنا تھا کہ بمباری کے بعد انہوں نے لاشیں اور کھنڈرات دیکھے جس سے ساما تابیل صدمہ سے دو چار ہو گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ گولہ باری کے مسلسل خوف اور عدم تحفظ نے ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑک دیا ہے اور اسرائیلی افواج کے ان مہلک حملوں نے ساما تابیل کو اس کے بچپن سے بھی محروم کر دیا ہے۔
ساما تابیل کی والدہ کا مزید کہنا ہے کہ خان یونس کیمپ میں دیگر بچیاں اب اسے گنجا اور کینسر کا مریض کہہ کر تنگ کرتی ہیں۔’یہ واقعی درد ناک ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دواؤں کی قلت کی وجہ سے ڈاکٹر محصور علاقے میں ان کا علاج نہیں کر سکتے جبکہ یونیسیف نے بھی خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بچوں کے ذہنی امراض جیسے بحران کا سامنا ہے۔