کیا ملازمین کو دفتری اوقات کے بعد باس کو نظرانداز کرنے کا حق بھی مل سکتا ہے؟

پیر 26 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دفتری اوقات کے بعد آجران یا سینیئر حکام کی جانب سے کام کرانے کے لیے ملازمین کو فون کالز یا ای میل کرنا معمول کی بات ہے، ایسے میں ملازمین کا اپنے باس کو نظرانداز کرنا مہنگا پڑسکتا ہے اور وہ ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھ سکتے ہیں۔

تاہم، آسٹریلوی حکومت نے ملازمین کے لیے انقلابی قدم اٹھایا ہے اور ایک ایسی قانون سازی کی ہے جس کی بدولت آسٹریلیا میں ملازمین کو دفتری اوقات کے بعد آجران کی کالز یا ای میلز کا جواب نہ دینے کا قانونی حق مل گیا ہے۔ اس نئے قانون کو ’رائٹ ٹو ڈس کنیکٹ‘ کا نام دیا گیا ہے جو فروری میں منظور کیا گیا تھا اور آج (پیر) سے ملک بھر میں نافذ العمل ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: مونال کے مالک نے ملازمین کے نام آخری خط میں کیا لکھا؟

اس قانون کے تحت ملازمین اوقات کار کے بعد اپنے افسران یا آجران کے احکامات کی تعمیل اور ان کی کالز و پیغامات کا جواب دینے کے پابند نہیں ہوں گے اورانہیں ان کی کالز منقطع کرنے یا ای میلز کا جواب نہ دینے کا حق حاصل ہوگا، جس پر ان کے خلاف کوئی ضابطے کی کارروائی بھی نہیں کی جائے گی۔

آسٹریلیا میں اس قانون کا اطلاق آجران کی جانب سے لوگوں کی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں دخل اندازی خصوصاً کورونا وبا کے بعد ڈیجیٹل کمیونیکیشن اور ’ورک فرام ہوم‘ جیسے طریقوں پر بڑھتے ہوئے انحصار کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سرکاری دفتر میں خاتون کے گانا گانے کی ویڈیو: ‘معیشت پر سرکاری کام ہوتے نظر آرہے ہیں’

اس حوالے سے آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی ایلبانیز نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کسی ورکر کو 24 گھنٹے کی تنخواہ نہیں دی جاتی تو اسے 24 گھنٹے آن لائن رہنے یا دفتری کام کے لیے دستیاب رہنے پر سزا بھی نہیں دی جاسکتی۔

تھنک ٹینک آسٹریلیا انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ برس آسٹریلیا میں اندازً ایک ورکر نے ایک ہفتے میں 5.4 گھنٹے بلامعاوضہ اضافی کام کیا، جبکہ 18 سے 19 سال کے ورکرز نے ایک ہفتے کے دوران 7.4 گھنٹے بلا معاوضہ اضافی کام کیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی قوم ایک ہفتے میں کتنے گھنٹے کام کرنا چاہتی ہے؟

اس قانون کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ملازمین عموماً جسمانی طور پر دفتر سے باہر لیکن ذہنی طور پر دفتر میں ہوتے ہیں، کیونکہ وہ گھر میں رہتے ہوئے یا فیملی کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی مسلسل فون کالز، ای میلز اور ٹیکسٹس کا جواب دے رہے ہوتے ہیں، باسز یا سینیئر حکام کا یہ رویہ ملازمین میں شدید تناؤ کا سبب بن سکتا ہے، ایسی کالز ان کے سکون میں خلل ڈالتی ہیں جس سے وہ مختلف بیماریوں کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ آجران کی کالز منقطع کرنے کا حق ایک قانونی حق ہے جو پہلی بار 2017 میں فرانس میں متعارف کروایا گیا تاکہ ورکرز کو کام کے اوقات کے بعد کالز کا جواب نہ دینے پر ملنے والی سزا سے بچایا جاسکے۔ بعدازاں، 20 سے زیادہ ممالک نے اسی طرح کی پالیسیاں متعارف کروائیں جن میں اسپین، فرانس اور آئرلینڈ کے علاوہ کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو بھی شامل ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp