گزشتہ کچھ روز سے حکومت کی جانب سے عدلیہ کے حوالے سے ایک جوڈیشل پیکج لائے جانے کی خبریں سوشل میڈیا پر زیرگردش ہیں جن میں کہا یہ جا رہا ہے کہ حکومت شاید چیف جسٹس کی عہدے کی مدت میں اضافہ کرے۔ ایسی قانون سازی جس کے ذریعے چیف جسٹس کا تعیناتی سینیئر موسٹ کے اصول کی بجائے، 3 سنییئر موسٹ ججز میں سے کسی ایک جج کے انتخاب کے اصول پر کی جائے اور شاید بینچز تشکیل دینے سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات کو بحال کیا جائے۔
تاہم اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز اور قانون دان ایسی پیش رفت سے لاعلم ہیں۔
اگر جوڈیشل پیکیج لاتے ہیں تو اس کا مطلب ہو گا حکومت کے پاس اکثریت ہے، بیرسٹر سینیٹر علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اور سینیئر قانون دان بیرسٹر علی ظفر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل پیکیج کے بارے میں بہت سی افواہیں چل رہی ہیں جن میں کچھ بھی فی الحال کنفرم نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم کا امکان: پارلیمنٹ میں اس وقت نمبر گیم کیا ہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سب سے خطرناک افواہ یہ ہے کہ یہ سینیئر موسٹ کے اصول کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگانے کے لیے ترمیم کریں گے لیکن اس کے لیے انہیں آئینی ترمیم لانے کی ضرورت پڑے گی جس کے لیے ان کے پاس مطلوبہ عددی اکثریت موجود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح سے چیف جسٹس کے عہدے کے معیاد اگر یہ لوگ بڑھانا چاہیں تو اس کے لیے بھی انہیں آئینی ترمیم اور پھر عددی اکثریت چاہیے جو فی الحال تو ان کے پاس نہیں۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے عہدے کے معیاد بڑھانے اور گھٹانے سے متعلق 2 مثالیں ہماری تاریخ میں موجود ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس شیخ ریاض کے عہدے کی مدت میں توسیع کے لیے ترمیم کروائی تھی لیکن وہ ترمیم اس وقت کے پارلیمان نے نامنظور کر دی اور اسی طرح سے ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ایک جج کو نکالنا مقصود تھا تو بھٹو نے آئینی ترمیم کرا کے ججوں کے عہدے کی مدت کم کروا دی تھی۔
مزید پڑھیے: حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کون سی نئی اہم قانون سازی کرنے جا رہی ہے؟
انہوں نے کہا کہ ایک ترمیم یہ کی جا سکتی ہے کہ بینچز کی تشکیل سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات 3 رکنی کمیٹی سے واپس چیف جسٹس کو منتقل کر دیے جائیں اور یہ سادہ اکثریت سے ہو بھی سکتا ہے کیونکہ اس کے لیے آئینی ترمیم نہیں کرنی پڑے گی صرف رولز میں ترمیم کر کے ایسا کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات سے تاحال انکار کر رہی ہے کہ کوئی جوڈیشل پیکیج نہیں لایا جا رہا اور اپوزیشن ممبران کے ساتھ ایسی کوئی چیز ڈسکس ہی نہیں کی گئی۔
کامران مرتضٰی
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمٰن کے سینیٹر کامران مرتضٰی نے بھی اس بات سے انکار کیا کہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کسی جوڈیشل پیکیج کے بارے میں کسی طرح کا کوئی تبادلہ خیال نہیں کیا گیا۔